Monday 18 April 2016

کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں

کھا پیچ و تاب مجھ کو ڈسیں اب وہ کالیاں
ظالم اسی لیے تیں نے زلفیں تھیں پالیاں
تنہا نہ در کو دیکھ کے گرتے ہیں اشکِ چشم
سوراخ دل میں کرتی ہیں کانوں کی بالیاں
دیکھا کہ یہ تو چھوڑنا ممکن نہیں مجھے
چلنے لگا وہ شوخ مِرا تب یہ چالیاں
ہر بات بیچ روٹھنا، ہر دم میں ناخوشی
ہر آن دوکھنا مجھے، ہر وقت گالیاں
ایذا ہر ایک طرح سیں دینا غرض مجھے
کچھ بس نہ چل سکا تو یہ طرحیں نکالیاں
یہ تھا خیال خواب میں ہے گا یہ روزِ وصل
آنکھیں جو کھل گئیں وہی راتیں ہیں کالیاں
ہم نے شبِ فراق میں، سنتا ہے اے فغاںؔ
کیا خاک سو کے حسرتیں دل کی نکالیاں

اشرف علی فغاں

No comments:

Post a Comment