دور ہی دور سے اک خواب دِکھائی دے گا
کوئی جاگا ہوا عمروں کا دُہائی دے گا
نسل در نسل یہی آس چلی آتی ہے
کوئ آئے گا ہمیں دُکھ سے رہائی دے گا
شام جب تھک کے دروبام پہ سو جائے گی
رت جگے اونگھتے رہتے ہیں مِری آنکھوں میں
کب زمانہ مِری نیندوں کو چٹائی دے گا
وہ عجب عکس ہے صورت نہیں رکھتا ناصرؔ
آئینہ توڑ کے دیکھو تو دِکھائی دے گا
نصیر احمد ناصر
No comments:
Post a Comment