Tuesday 19 April 2016

دور ہی دور سے اک خواب دکھائی دے گا

دور ہی دور سے اک خواب دِکھائی دے گا
کوئی جاگا ہوا عمروں کا دُہائی دے گا
نسل در نسل یہی آس چلی آتی ہے
کوئ آئے گا ہمیں دُکھ سے رہائی دے گا
شام جب تھک کے دروبام پہ سو جائے گی
اک ستارا مِری پلکوں پہ دکھائی دے گا
رت جگے اونگھتے رہتے ہیں مِری آنکھوں میں
کب زمانہ مِری نیندوں کو چٹائی دے گا
وہ عجب عکس ہے صورت نہیں رکھتا ناصرؔ
آئینہ توڑ کے دیکھو تو دِکھائی دے گا

نصیر احمد ناصر

No comments:

Post a Comment