Wednesday 13 April 2016

وہ بیچارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے

وہ بے چارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے
در بدر خاک بسر پھرتے ہیں مارے مارے
آنے والے کی مہک بھی تو ہواؤں میں نہیں
میری پلکوں سے یہ کیوں جھانک رہے ہیں تارے
کیا خبر حال مِرا کیا ہو سحر ہونے تک
آج کی رات نہ جا چھوڑ کے مجھ کو پیارے
چپ لگی رہتی ہے لبوں پر تو نہ بہتے آنسو
چھٹ گیا درد کا بادل نکل آئے تارے
زندگی اپنی گنہ گارِ محبت ہی سہی
کون ایسا ہے جو پہلا اسے پتھر مارے
اف وہ آنسو جو بہائے دمِ رخصت اس نے
میرے دامن میں کوئی ڈال گیا انگارے
ربط اتنا نہ بڑھا اس بتِ کافر سے قتیلؔ
مار ڈالیں گے تجھے مل کے مسلماں سارے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment