وہ بے چارے جو کبھی پیار کی بازی ہارے
در بدر خاک بسر پھرتے ہیں مارے مارے
آنے والے کی مہک بھی تو ہواؤں میں نہیں
میری پلکوں سے یہ کیوں جھانک رہے ہیں تارے
کیا خبر حال مِرا کیا ہو سحر ہونے تک
چپ لگی رہتی ہے لبوں پر تو نہ بہتے آنسو
چھٹ گیا درد کا بادل نکل آئے تارے
زندگی اپنی گنہ گارِ محبت ہی سہی
کون ایسا ہے جو پہلا اسے پتھر مارے
اف وہ آنسو جو بہائے دمِ رخصت اس نے
میرے دامن میں کوئی ڈال گیا انگارے
ربط اتنا نہ بڑھا اس بتِ کافر سے قتیلؔ
مار ڈالیں گے تجھے مل کے مسلماں سارے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment