Tuesday, 19 April 2016

کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں

کمی نہ کی تِرے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراق دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مِرے فسانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجھکے جو رنگ لانے میں
کبھی بیانِ دل خوں شدہ سے یہ بھی کھلا
بھری ہیں کس نے یہ رنگینیاں فسانے میں
کسی کی حالتِ دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہو،۔ یا تجھے بھلانے میں
ہمِیں ہیں گل، ہمِیں بلبل، ہمِیں ہوائے چمن
فراق خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں 

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment