Tuesday, 19 April 2016

کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے

کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے 
موت کی آنکھ بھی کھُل جائے گی آواز تو دے
چشمِ مخمور کے عنوانِ نظر کچھ تو کھُلیں
دلِ رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے​
اک ذرا ہو نشۂ حسن میں اندازِ خمار
اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے
جو چھپائے نہ چھپے، اور بتائے نہ بنے
دلِ عاشق ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے
منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق
چھیڑنے ہی کو ہوں پُر درد غزل ساز تو دے
ہم اسیرانِ قفس آگ لگا سکتے ہیں
فرصتِ نغمہ کبھی حسرتِ پرواز تو دے
عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے
عندیہ اپنا مگر کچھ نِگہِ ناز تو دے
کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لے لیتے ہیں کام
آج چھپ کر کوئی آواز پہ آواز تو دے

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment