Monday, 18 April 2016

کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے

کہیں ساقی کا فیض عام بھی ہے
کسی شیشے پہ میرا نام بھی ہے
وہ چشمِ مست مۓ بھی جام بھی ہے
پھِرے تو گردشِ ایام بھی ہے
نوائے چنگ و بربط سننے والو
پس پردہ بڑا کہرام بھی ہے
مِری فردِ جنوں پہ اے بہارو
گواہوں میں خزاں کا نام بھی ہے
نہ پوچھو بے بسی اس تشنہ لب کی
کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے
محبت کی سزا ترکِ محبت
محبت کا یہی انعام بھی ہے
نگاہِ شوق ہے گستاخ، لیکن
نگاہِ شوق کچھ بدنام بھی ہے
نگاہوں کا تصادم کس نے دیکھا
مگر یہ راز طشت از بام بھی ہے

وامق جونپوری

No comments:

Post a Comment