Tuesday 12 April 2016

سو رہا تھا تو شور برپا تھا

سو رہا تھا تو شور برپا تھا
اٹھ کے دیکھا تو میں اکیلا تھا
خاک پر میرے خواب بکھرے تھے
اور میں ریزہ ریزہ چنتا تھا
چار جانب وجود کی دیوار
اپنی آواز میں ہی سنتا تھا
عمر بھر بوند بوند کو ترسے
سامنے گھر کے ایک دریا تھا
لبِ دریا کھڑے رہے دونوں
وہ بھی پیاسا تھا، میں بھی پیاسا تھا

رضی ترمذی

No comments:

Post a Comment