Friday, 15 April 2016

آنکھ میں آنسو لب پر نالے

آنکھ میں آنسو، لب پر نالے
کیسے ہیں یہ چاہنے والے
پرِیتم کا سندیسہ لے کر
گھِر آئے ہیں بادل کالے
ہم کو لے آئے منزل تک
راہ کے کانٹے، پاؤں کے چھالے
نور سحر کا چھین ہی لیں گے
ظلمتِ شب سے لڑنے والے
کون بنے بے گانہ ان کا
کون آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
بانہیں جیسے گل کی شاخیں
آنکھیں جیسے مدھ کے پیالے
اہلِ ساحل دیکھ رہے تھے
ڈوب گئے جب ڈوبنے والے
فیضانِ غم عام ضیاؔ ہے
اپنی بگڑی تُو بھی بنا لے

ضیا فتح آبادی

No comments:

Post a Comment