کوئی ادا شناسِ محبت ہمیں بتائے
جو ہم کو بھول جائے وہ کیوں ہم کو یاد آئے
کس کی مجال تھی کہ حجابِ نظر اٹھائے
وہ مسکرا کے آپ ہی دل کے قریب آئے
اک دل نشیں نگاہ میں اللہ یہ خلش
کہتے تھے تم سے چھوٹ کر، کیونکر جئیں گے ہم
جیتے ہیں تم سے چھوٹ کے، تقدیر جو دکھائے
کچھ ہم سے بے خودی میں ہوئیں بے حجابیاں
چشمک زنی ستاروں نے کی، پھول مسکرائے
مایوسیوں میں دل کا وہ عالم دمِ وِداع
بجھتے ہوئے چراغ کی لَو جیسے تھرتھرائے
وہ جانِ آرزو کہ ہے سرمایۂ حیات
کیوں اس کی یاد غم کی گھٹا بن کے دل پہ چھائے
'تم تو ہم ہی کو کہتے تھے 'یہ تم کو کیا ہوا
دیکھو کنول کے پھول سے شبنم چھلک نہ جائے
اک نا تمام خواب مکمل نہ ہو سکا
آنے کو زندگی میں بہت انقلاب آئے
عندلیب شادانی
No comments:
Post a Comment