چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا
کہاں وہ چشم جو ماریں نظارا
جدا نہیں سب ستی تحقیق کر دیکھ
ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا
مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے منزل
مثالِ بحر موجیں مارتا ہے
کیا ہے جس نے اس جگ سوں کنارا
سیانے خلق سے یوں بھاگتے ہیں
کہ جوں آتش ستی بھاگے ہے پیارا
سمجھ کر دیکھ سب جگ سیکھ ماہی
کہاں ہے گا سکندر، کاں ہے دارا
کہیں ہیں اہلِ عرفاں اس کو جیتا
جو مر کر عشق میں دنیا سوں ہارا
صفا کر دل کے آئینہ کو حاتمؔ
دیکھا چاہے سجن گر آشکارا
شاہ حاتم
شیخ ظہور حاتم
شیخ ظہور حاتم
کاں = کہاں
No comments:
Post a Comment