Monday 18 April 2016

چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا

چھپا نہیں جابجا حاضر ہے پیارا
کہاں وہ چشم جو ماریں نظارا
جدا نہیں سب ستی تحقیق کر دیکھ
ملا ہے سب سے اور سب سے ہے نیارا
مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے منزل
بجے ہے کوچ کا ہر دم نقارا
مثالِ بحر موجیں مارتا ہے
کیا ہے جس نے اس جگ سوں کنارا
سیانے خلق سے یوں بھاگتے ہیں
کہ جوں آتش ستی بھاگے ہے پیارا
سمجھ کر دیکھ سب جگ سیکھ ماہی
کہاں ہے گا سکندر، کاں ہے دارا
کہیں ہیں اہلِ عرفاں اس کو جیتا
جو مر کر عشق میں دنیا سوں ہارا
صفا کر دل کے آئینہ کو حاتمؔ
دیکھا چاہے سجن گر آشکارا

شاہ حاتم
شیخ ظہور حاتم

کاں = کہاں 

No comments:

Post a Comment