ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی
یہ محسوس ہوتا ہے چھٹ کر کسی سے
کوئی چیز کم ہو گئی زندگی سے
زمانہ ابھی تک سزا پا رہا ہے
خطا ہو گئی تھی کبھی آدمی سے
ستاتی ہے غربت میں یادِ وطن جب
گلے مل کے روتا ہوں ہر اجنبی سے