Sunday, 29 September 2019

غزال آنکھوں کو مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں

غزال آنکھوں کو، مہ جبینوں کو دیکھتے ہیں
پرانے شاعر نئی زمینوں کو دیکھتے ہیں
تو علم ہوتا ہے سانپ بِچھو پلے ہوۓ تھے
اگر کبھی اپنی آستینوں کو دیکھتے ہیں
یہ بھید کھلتا ہے تب کہ کوئی رکا نہیں ہے
کھنڈر نما دل میں جب مکینوں کو دیکھتے ہیں

دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے

دل بچپن کے سنگ کے پیچھے پاگل ہے
کاغذ، ڈور، پتنگ کے پیچھے پاگل ہے
یار! میں اتنی سانولی کیسے بھاؤں تجھے
ہر کوئی گورے رنگ کے پیچھے پاگل ہے
شہزادی، شہزادہ خوش، اور بنجارہ
ٹوٹی ہوئی اک ونگ کے پیچھے پاگل ہے

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب لگی شرط

ہونے ہیں شکستہ ابھی اعصاب، لگی شرط
دھتکارنے والی ہوں میں سب خواب، لگی شرط
اے شام کے بھٹکے ہوئے ماہتاب، سنبھل کر
ہے گھات میں بستی کا یہ تالاب، لگی شرط
اچھا تو وہ تسخیر نہیں ہوتا کسی سے؟
یہ بات ہے تو آج سے احباب، لگی شرط

زرد چہرہ ہے مرا زرد بھی ایسا ویسا

زرد چہرہ ہے مِرا زرد بھی ایسا ویسا 
ہجر کا درد ہے اور درد بھی ایسا ویسا 
ایسی ٹھنڈک کہ جمی برف ہر اک خواہش پر 
سرد لہجہ تھا کوئی سرد بھی ایسا ویسا 
اب اسے فرصت احوال میسر ہی نہیں 
وہ جو ہمدرد تھا ہمدرد بھی ایسا ویسا 

Saturday, 28 September 2019

دل کے احساس میں شامل ہے ضرورت اس کی

دل کے احساس میں شامل ہے ضرورت اس کی
میرے سینے میں دھڑکتی ہے محبت اس کی
آئینہ ہو کہ بھی میں دیکھ نہیں پاتا اسے 
آن کی آن بدل جاتی ہے صورت اس کی
میرے ہاتھوں سے یہ کشکول گرے تو مانو 
یوں تو مشہور ہے دنیا میں سخاوت اس کی

ہوا نہ مجھ سے کوئی ہمکلام گردش میں

ہُوا نہ مجھ سے کوئی ہم کلام گردش میں 
دھواں ہوۓ ہیں مِرے صبح و شام گردش میں
خیال و خواب ہوا ہر زمانۂ وحشت 
اتر چکے ہیں سبھی خوش خرام گردش میں
میں بھاگتا ہوں سرِ دشتِ کربلا اور پھر 
اضافہ کرتے ہیں آ کر امام گردش میں

خوشا کے وقت سے اذن سفر ملا ہے مجھے

خوشا کے وقت سے اذنِ سفر ملا ہے مجھے 
تمام شہر سرِ رہگزر ملا ہے مجھے
میں ڈھال سکتا ہوں ہر شے کو اپنے سانچے میں 
مِرے عزیز! بلا کا ہنر ملا ہے مجھے
یہ سوچتا ہوں مجھے کس طرح سے مل پاتا 
سکوں بھی وہ جو تجھے دیکھ کر ملا ہے مجھے

کولاژ

کولاژ

اس نے مٹھی کے گلداں میں ٹہنی رکھی
پتیوں کے کنارے چمکنے لگے
پھول بھرنے لگے اور چھلکنے لگے

اس نے پاؤں دَھرے گھاس کے فرش پر
پاؤں کا دُودھیا پن سوا ہو گیا
سبزہ پہلے سے زیادہ ہرا ہو گیا

مجھے اب اور نا سینا

مجھے اب اور نا سینا

وہ تیزی سے اُدھڑتا جا رہا تھا
ہر اک دن اس کے بخیوں سے الجھ کر رات ہو جاتا
وہ روزانہ
بساطِ روز و شب پہ سانس کے مہرے چلا کر مات ہو جاتا
وہ سینہ کھول دیتا اور گہری سوچ میں رہتا

ہم شاعر ہوتے ہیں

ہم شاعر ہوتے ہیں
ہم پیدا کرتے ہیں
ہم گیلی مٹی کو مٹھی میں بھینچا کرتے ہیں
تو شکلیں بنتی ہیں
ہم ان کی چونچیں کھول کے سانسیں پھونکا کرتے ہیں
جو مٹی تھے، وہ چھو لینے سے طائر ہوتے ہیں

سواگت گھر کا دروازہ کھلا

سواگت 

گھر کا دروازہ کھلا
کتنے دن بعد اسے سانس آیا
کتنے دن بعد اسے اپنوں کی بچھڑی ہوئی خوشبو آئی
ماں نے پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا باپ نے سر پہ ہتھیلی رکھی
دو بھتیجوں نے اسے سہما ہوا پیار کیا
طاق پر گزرے ہوئے بھائی کی تصویر ہنسی

Friday, 27 September 2019

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر

ہم نے سوچا تھا خدوخال کے جادو سے ادھر
اپنے جیون کے شب و روز بِتا ڈالیں گے
آرزو حسن پرستی کی مٹا ڈالیں گے
زیست میں راہ نہ دیں گے کسی رنگینی کو
خوش جمالوں کے نہ احسان اٹھائیں گے کبھی
پھول خوابوں کے نہ سوچوں میں کھلائیں گے کبھی

دیے سے جب دیا جلتا رہے گا

دِیے سے جب دِیا جلتا رہے گا 
اجالا پھُولتا پھلتا رہے گا 
زمیں پر بارشیں ہوتی رہیں گی 
سمندر ابر میں ڈھلتا رہے گا
تلاطم ہو کہ دریا میں سکوں ہو
گُہر تو سیپ میں پلتا رہے گا

استقلال؛ دھیرے دھیرے چلتے رہنا

اِستقلال

دھیرے دھیرے چلتے رہنا
ہے درپیش طویل  مسافت
تھک جاؤ گے تیز روی سے
تھوڑی دیر میں قوت ساری
ہو جائے گی صَرف سفر میں
ایسے میں منزل کی جانب
کسی طرح تم جا نہ سکو گے

شجر بے دست و پا ہیں ابتلا کو کون روکے گا

شجر بے دست و پا ہیں ابتلاء کو کون روکے گا 
ہوا پتے گرائے گی، ہوا کو کون روکے گا؟
یہی بہتر ہے افشاء خود ہی کر دے اپنے رازوں کو
نہیں تو کل تِرے راز آشنا کو کون روکے گا؟
چلو بالفرض ہم ایماں نہیں لاتے تغیر پر
خیال اٹھتا ہے یہ، صبح و مسا کو کون روکے گا

اچھا نہیں کہ اوج سے پندار گر پڑے

اچھا نہیں کہ اوج سے پندار گر پڑے
اتنا نہ سر اُٹھا کہ دستار گر پڑے
ہو گا تمہیں بھی رنج ہنسے گا اگر کوئی
ٹھوکر سے تم جہاں سرِ بازار گر پڑے
جلتے ہیں دھوپ میں کہ یہ رہتا ہے ڈر ہمیں
سائے میں بیٹھتے ہی نہ دیوار گر پڑے

Thursday, 26 September 2019

پانی ٹوٹ نہیں سکتا

پانی ٹوٹ نہیں سکتا
لیکن ضد پر آ جاۓ تو
 پتھر چھلنی ہو جاتے ہیں
لوہے کی زنجیریں، تالے اور سلاخیں
زنگ میں ڈوب کے مر جاتی ہیں

عابی مکھنوی

عمر اب کیوں نہیں آتا

عمرؓ اب کیوں نہیں آتا

میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمرؓ اب بھی نہیں آیا

سورج سانجھا ہوتا ہے نا

سورج سانجھا ہوتا ہے نا؟
سورج سب کا ہوتا ہے نا؟
تیری دنیا روشن کیسے؟
مجھ کو کِرنیں ڈستی کیوں ہیں؟
سانسیں سانسیں ہوتی ہیں نا؟
تیری ہوں یا میری ہوں وہ

اے دست شناسو بتلاؤ

اے دست شناسو! بتلاؤ
جو ہاتھ لکیریں کھو بیٹھے
پھر ان کی قسمت کیا ہو گی
جو سب کو جنت دیتے ہیں
وہ دوزخ میں کیوں جلتے ہیں

فیل بانو

فیل بانو 
گھر میں ہاتھی کون رکھتا ہے
زرا تم اپنے دروازوں کے قد تو ناپ لیتے
جہاں پر فیل بانی ہو
وہاں اگر چیونٹیاں پامال ہو جائیں تو حیرانی نہیں ہوتی

وحید احمد

Tuesday, 24 September 2019

فقط ہم تم ہی بدلے ہیں

فقط ہم تم ہی بدلے ہیں

چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
نہ ماہ و سال ہیں بدلے نہ ماضی حال ہیں بدلے
وہاں پہ لوٹ جائیں ہم جہاں معلوم ہو کے بس
نہیں کچھ اور ہے بدلا فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
وہی مٹی وہی خوشبو وہی سوندھی فضائیں ہیں
وہی گلزار منظر تو وہی من چاہی راہیں ہیں

محبت چھوڑ دو کرنا

محبت چھوڑ دو کرنا

محبت ہی نہیں لازم 
نبھانا بھی ضروری ہے 
اگر ایسا نہیں ممکن
محبت چھوڑ دو کرنا  
محبت تب ہی تم کرنا 
کہ جب احساس شامل ہو 

Saturday, 21 September 2019

کیا مٹی میں ڈھونڈ رہے ہو کیا رکھا ہے جالوں میں

دیواروں پہ چڑھ جاتی ہیں بیلیں اتنے سالوں میں
کیا مٹی میں ڈھونڈ رہے ہو کیا رکھا ہے جالوں میں
سونے جیسے لمحے جھونکے ہم نے وقت کی بھٹی میں
کندن بنتے بنتے اب تو چاندی اتری بالوں میں
منظر ایسا دیکھا ہے کیا چاند بھنور میں کھونے کا
ڈِمپل پڑتے دیکھے ہیں کیا تم نے اس کے گالوں میں

یک طرفہ محبت

یکطرفہ محبت

یک طرفہ محبت بھی
کیا خوب محبت ہے
دیوار کے پیچھے سے
دیوار نکلتی ہے
برسوں‌ کی ریاضت بھی

Friday, 20 September 2019

اکیلے ایک ہم نہیں

اکیلے ایک ہم نہیں

کبھی کبھی یہ سوچ کر بهی
اپنے رنج کم ہوئے
کہ اس کٹهن سراب میں
حیات کے عذاب میں
اکیلے ایک ہم نہیں
بہت ہیں لوگ اور بهی

تو کیا تم اتنی ظالم ہو

تو کیا

تو کیا تم اتنی ظالم ہو
مِرے تیمار داروں سے
مسیحا جب یہ کہہ دیں گے
دوا تاثیر کھو بیٹھی
دُعا کا وقت آ پہنچا

وہ کھیل محبت کا

وہ کھیل محبت کا

کردار تھے ہم جس کے
وہ کھیل محبت کا
جس شخص نے لکھا تھا
اس شخص نے جو چاہا
وہ کر کے دکھایا بھی
اور آخری منظر میں
اس کھیل میں باقی تھا

ہم نے کوشش بھی کی

ہم نے  کوشش بھی کی
اک ملاقات ہو
وصل کا دن چڑھے
ختم یہ رات ہو
دوستوں نے مگر
ایک چلنے نہ دی
وہ جو ڈھل سکتی تھی
رات ڈھلنے نہ دی

چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے

ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا لیکن
وہ جو آیا ہے مِرے گھر میں اندھیرے لے کر
چاہتا ہے کہ اسے چاند پکارا جائے

راشد مراد

گل فروشوں کا شہر ہے اس میں

گُل فروشوں کا شہر ہے، اس میں
پھول ملتے نہیں ٹھکانے پر
تتلیاں جا بجا بھٹکتی ہیں

راشد مراد

میں تجھے چاہتا نہیں لیکن

تجزیہ

میں تجھے چاہتا نہیں، لیکن
پھر بھی جب پاس تُو نہیں ہوتی
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
جانے کیا دھن سمائی رہتی ہے
اک خموشی سی چھائی رہتی ہے
دل سے بھی گفتگو نہیں ہوتی

Monday, 16 September 2019

انگارے

انگارے

تم؟
تمہارا نام؟
لیکن میں نے یہ نام 
آج پہلی بار تم سے ہی سنا ہے
کون ہو تم؟
کون تھیں تم؟

دکھ ہیں اور میں ہوں

دُکھ ہیں اور میں ہوں
میں ہوں اور دُکھ ہیں
قاتل تر سُکھ ہیں
شنکر جی! گونگے شنکر جی
ہونٹ میرے کُکھ ہیں
میں ہوں اور دُکھ ہیں

جون ایلیا

مجھے قلم دو

مجھے قلم دو کہ میں تمہیں اک کتاب لکھ دوں
تمہاری راتوں کے واسطے اپنے خواب لکھ دوں
کتاب جس میں ہدایتیں ہیں
کتاب جس میں تمہارے امراض کی شفا ہے
مجھے قلم دو
مجھے قلم دو

یہ محسوس ہوتا ہے چھٹ کر کسی سے

یہ محسوس ہوتا ہے چھٹ کر کسی سے
کوئی چیز کم ہو گئی زندگی سے
زمانہ ابھی تک سزا پا رہا ہے
خطا ہو گئی تھی کبھی آدمی سے
ستاتی ہے غربت میں یادِ وطن جب
گلے مل کے روتا ہوں ہر اجنبی سے

Wednesday, 11 September 2019

خالی ہاتھ

خالی ہاتھ

جب اس کے ساتھ تھی
میں اس وسیع کائنات میں
نفس نفس، قدم قدم
نظر نظر امیر تھی
اور اب

نہ بام و دشت نہ دریا نہ کوہسار ملے

نہ بام و دشت، نہ دریا، نہ کوہسار ملے
جنوں کی راہ تھی حالات سازگار ملے
لبوں پہ حرفِ شکایت بھی آ کے ٹوٹ گیا
وہ خود فگار تھے جو ہاتھ سنگبار ملے
ادھر فصیلِ شبِ غم، ادھر ہے شہر پناہ
صبا سے کہیو وہیں آ کے ایک بار ملے

آشوب آگہی جیسے دریا کنارے کوئی تشنہ لب

آشوبِ آگہی

جیسے دریا کنارے
کوئی تشنہ لب
آج میرے خدا
میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں
میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب
میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے

بے جنبش ابرو تو نہیں کام چلے گا

بے جنبشِ ابرو تو نہیں کام چلے گا
آ کر مِرے قصے میں تِرا نام چلے گا
ٹھہرا ہے مِرے ذہن میں جو قافلۂ گل
تھوڑا سا تو لے کر یہاں آرام چلے گا
زہاد کی مالا نہیں جو رات کو نکلے
رِندوں کا پیالہ ہے سرِ شام چلے گا

ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی

ہلکا ہلکا سرور ہے ساقی
بات کوئی ضرور ہے ساقی
تیری آنکھوں کو کر دیا سجدہ
میرا پہلا قصور ہے ساقی
تیرے رخ پر ہے یہ پریشانی
اک اندھیرے میں نور ہے ساقی

Sunday, 8 September 2019

ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے

ماضی کو بھی دیکھیں گے اب اپنی ہی نظر سے
اس کی بھی خبر کچھ نہ ملی اہلِ خبر سے
کچھ گم ہوئے اوراق روایت میں نہ آ کر
کچھ مسخ ہوئے حسنِ روایت کے اثر سے
گردش میں ہیں سب دشت و دیار و در و دیوار
وہ بھی ہیں سفر میں کہ جو نکلے نہیں گھر سے

گو نظر اکثر وہ حسن لا زوال آ جائے گا

گو نظر اکثر وہ حسنِ لا زوال آ جائے گا
راہ میں لیکن سرابِ ماہ و سال آ جائے گا
یا شکن آلود ہو جائے گی منظر کی جبیں
یا ہماری آنکھ کے شیشے میں بال آ جائے گا
ریت پر صورت گری کرتی ہے کیا بادِ جنوب
کوئی دم میں موجۂ بادِ شمال آ جائے گا

میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں

میں سوچتا تھا کہ وہ زخم بھر گیا کہ نہیں
‘کھلا دریچہ، در آئی صبا، کہا کہ ’نہیں
ہوا کا رُخ تو اسی بام و در کی جانب ہے
پہنچ رہی ہے وہاں تک مِری صدا کہ نہیں
زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ
تِرے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں

گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا

گاؤں کے اک چھوٹے گھر میں کچھ لمحے مہتاب رہا
لیکن اس کی یاد کا پودا برسوں تک شاداب رہا
فصل خزاں کی شاخ سے لپٹا بیلے کا اک تنہا پھول
کچھ کلیوں کی یاد سمیٹے راتوں کو بے خواب رہا
بچھڑے تھے تو ساکت پلکیں سوکھے پیڑ کی شاخیں تھیں
اس سے بچھڑ کر دُور چلے تو کوسوں تک سیلاب رہا

Saturday, 7 September 2019

ایزی لوڈ

ایزی لوڈ

دل کی سِم میں جانِ جاں
جس قدر بھی بیلنس تھا
قرض تھا محبت کا
خرچ کر دیا ہم نے سانس کی تجارت میں
کیش کے زمانے میں

وطن سے دور آ کر جو بڑی دولت کماتے ہیں

پردیسی

وطن سے دور آ کر جو بڑی دولت کماتے ہیں
کبھی آؤ! ہمیں دیکھو کہ غم کتنا اٹھاتے ہیں
بڑا مہنگا پسینہ ہے، بڑے سستے کھلونے ہیں
یہاں ارماں لٹا کر ہم بڑے ڈالر بچاتے ہیں
اقامہ ہے، کفالت ہے، یہاں دینار ملتے ہیں
فراوانی ہے پیسوں کی یہی سب کو بتاتے ہیں

عدو سے جا کے کہہ دینا

عدو سے جا کے کہہ دینا
شجاعت کا حسِیں جذبہ
دماغ و دل میں مت ڈھونڈے
شہادت وہ تمنا ہے
جسے مردِ مجاہد کا لہو تجسِیم کرتا ہے
بدن سے ماوراء ہے جو

دیکھ آیا ہوں ہر اک دشت و بیاباں جاناں

دیکھ آیا ہوں ہر اک دشت و بیاباں جاناں
کوئی ملتا ہی نہیں چاک گریباں جاناں
پھر دلِ زار کو لے آیا جنوں محفل میں
پھر ہوئی زلف تِری کھل کے پریشاں جاناں
ہم نے ہر شب کو بنا رکھا ہے عاشور کی شب
اب تو ہر شام لگے شامِ غریباں جاناں

منتظر ایوبی کے غزنوی کی آمد کے

منتظر ایوبی کے
غزنوی کی آمد کے
بِن سروں‌ کے لاشوں‌ پر
بین کرتے جاتے ہیں‌
اپنے اپنے بچوں‌ کے
چھید چھید جسموں‌ کو

دشمن سے بڑھ گئی ہے تری رسم و راہ، واہ

دشمن سے بڑھ گئی ہے تِری رسم و راہ، واہ
تُو بھی ہے میرے سامنے لے کر سپاہ، واہ
اب تیری دسترس میں سنا کائنات ہے
مٹھی میں آ گئے ہیں تِری مہر و ماہ، واہ
تیری ستم گری کا تو اک شہر تھا گواہ
مجھ پر بھی پڑگئی ہے تِری اب نگاہ، واہ

تمہاری آنکھوں کی آبیاری کو صرف تھوڑا سا جل لگے گا

تمہاری آنکھوں کی آبیاری کو صرف تھوڑا سا جل لگے گا
کہ پھر تو مِژگاں کی ڈالیوں پہ ہر ایک موسم میں پھل لگے گا
حِنائی ہاتھوں میں پھول پہنو گی جب بھی زُود آشنائے غیراں
وہ لمسِ شب گیر یاد آیا تو ہاتھ گجروں میں شٙل لگے گا
ابھی تو کیمپس کی راہداری میں قہقہے تیرے گونجتے ہیں
چھِڑے گا جب ذکر ان دنوں کا تو آنکھ بھرنے میں پَل لگے

کوئی منزل نہ کچھ سبیل ہوئی

کوئی منزل نہ کچھ سبیل ہوئی
راہ اندھی ہوئی، طویل ہوئی
ساری دنیا ہی ہو گئی منصف
کیا محبت مِری وکیل ہوئی
تیرے جانے سے چلو یہ تو ہوا
مختصر زندگی طویل ہوئی

Sunday, 1 September 2019

کس طرح کہیں تجھ سے

مختصر نظم

کس طرح کہیں تجھ سے
تیرے روٹھ جانے سے
ہم دُکھوں کے ماروں پر
دو ٹکے کے لوگوں نے
انگلیاں اٹھائی ہیں

زین شکیل

شاعروں کے بختوں میں

شاعروں کے بختوں میں
رونقیں نہیں ہوتیں
یہ عجیب ہوتے ہیں
جنگلوں، پہاڑوں میں اک نگر بساتے ہیں
خواب کے سہارے پر
شہر میں تو رہتے ہیں 
بَس مگر نہیں پاتے 

اکثر ایسا ہو جاتا ہے

اکثر

آنسو راہ بھٹک جاتے ہیں
آنکھیں بنجر ہو جاتی ہیں
سپنے مردہ ہو جاتے ہیں
نیندیں ماتم کر لیتی ہیں
اکثر ایسا ہو جاتا ہے
بھولی بسری یادیں آ کر