Sunday, 23 June 2013

کبھی اداس کبھی خوش ہے آنسوؤں کی طرح

کبھی اداس کبھی خوش ہے آنسوؤں کی طرح
مزاج دل کا بدلتا ہے موسموں کی طرح
تمام رات جو چھایا رہا دھواں بن کر
برس پڑا میری آنکھوں سے بادلوں کی طرح
وہ اک سکوت جو پنہاں تھا اس کے جلوے میں
پگھل گیا میرے رستے میں آہٹوں کی طر

Tuesday, 18 June 2013

سجدے خدا کو کرتا ہے انسان ریت پر

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

سجدے خدا کو کرتا ہے انسان ریت پر
ابنِ علیؓ ولی کا ہے احسان ریت پر
جلنے لگی تھی شام بھی خیموں کے ساتھ ساتھ
اور جل رہا تھا خُلد کا سامان ریت پر
تب سے یزیدیوں کو ہے چُپ سی لگی ہوئی
لکھا تھا شہہ نے وقت کا فرمان ریت پر

مجھ کو سناں کی نوک پہ سر چھوڑنا پڑا

مجھ کو سناں کی نوک پہ سر چھوڑنا پڑا
قاتل کو اس کے بعد ہنر چھوڑنا پڑا
اس مہ جبیں نے بام پہ کھولے سیاہ بال
پریوں کو اپنا قاف نگر چھوڑنا پڑا
کھنچتی لکیر سہہ نہ سکا گھر کے صحن میں
آخر ضعیف باپ کو گھر چھوڑنا پڑا

نشاط ہجر میں خود کو فنا کروں گا میں

نشاطِ ہجر میں خود کو فنا کروں گا میں
تجھے بتا بھی رہا ہوں کہ جا، کروں گا میں
میں ایسے شعر کہوں گا کہ تُو نظر آئے
سماعتوں میں بصارت بھرا کروں گا میں
نہ کوئی جھانکتی آنکھیں، نہ ادھ کھلی کھڑکی
یوں اسکے شہر میں کب تک پھرا کروں گا میں

گلبدن، خاک نشینوں سے پرے ہٹ جائیں

گلبدن، خاک نشینوں سے پرے ہٹ جائیں
آسماں، اُجلی زمینوں سے پرے ہٹ جائیں
میں بھی دیکھوں تو سہی بپھرے سمندر کا مزاج
اب یہ ملاح سفینوں سے پرے ہٹ جائیں
کرنے والا ہوں ہوں دلوں پر میں محبت کا نزول
سارے بُو جہل، مدینوں سے پرے ہٹ جائیں

حسن فانی ہے جوانی کے فسانے تک ہے

حُسن فانی ہے، جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے
وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہو گی
اجنبیّت تو فقط سامنے آنے تک ہے
شاعری پیروں، فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
اب تو یہ کام فقط نام کمانے تک ہے

سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا

سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
گزر گیا میں زمانے پہ وار کرتا ہوا
خزاں رسِیدہ بدن، جس کا منتظر تھا وہ شخص
کبھی نہ آیا خزاں کو بہار کرتا ہوا
یہ واقعہ بھی عجب ہے، میں ہنس پڑا خود پر
گئے دنوں کی اذیّت شمار کرتا ہوا

گل کھلاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں

گُل کھلاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں
اور کیا تجھ سے ترے خاک نشیں چاہتے ہیں
ہم کو منظور نہیں پھر سے بچھڑنے کا عذاب
اس لیے تجھ سے ملاقات نہیں چاہتے ہیں
کب تلک در پہ کھڑے رہنا ہے، اُن سے پوچھو
کیا وہ محشر کا تماشا بھی یہیں چاہتے ہیں؟

پتے خزاں کی نذر کیے اور پھول بھی

پتے خزاں کی نذر کیے، اور پُھول بھی
آخر شجر نے جھاڑ دی شاخوں سے دُھول بھی
مجھ کو زمیں پہ بھیج دیا آسمان سے
تجھ سے معاف ہو نہ سکی ایک بُھول بھی
پہلے تو اس نے راستے کانٹوں سے بھر دیے
پھر ان میں لا کے رکھ دیے دو چار پُھول بھی

متصل آنکھ رعایا کی رہی پانی سے

مُتصل آنکھ رعایا کی رہی پانی سے
سب کوشکوہ ہے محبت کی مہارانی سے
تتلیاں رنگ چُرانے کو چلی آئی تھیں
اِک نیا پھُول کھِلا تھا بڑی تابانی سے
اب بھی اس راجکماری کے بدن کی خُوشبو 
آنے لگتی ہے مجھے صحن کی ویرانی سے

Monday, 17 June 2013

کتنا مشکل ہے ترا ہجر بتانا مرے دوست

کتنا مُشکل ہے تِرا ہِجر بِتانا مرے دوست
تُو کسی روز مجھے دیکھنے آنا مرے دوست
اِک طرف دل کی صدا آئی کہ میں ڈُوب چلا
اِک طرف آنکھ پکاری کہ بچانا مرے دوست
نیند پھر آنکھ کی سرحد سے نِکل جائے گی
تُو کوئی خواب نہ آنکھوں میں سجانا مرے دوست

Saturday, 15 June 2013

وہ تھکاوٹ ہے کہ سب لوگ ہیں پتھرائے ہوئے

وہ تھکاوٹ ہے کہ سب لوگ ہیں پتھرائے ہوئے
 کہاں جاتے ہیں بتا راستے بَل کھائے ہوئے
 آپ اک بار محبت سے  پکاریں تو سہی
 ہم تو قبروں سے بھی اُٹھ آئیں گے دفنائے ہوئے
 ہار جانا تو مقدر میں لکھا تھا، لیکن
 ہار گردن سے اُتارے گئے پہنائے ہوئے

فیصلہ مختصر دیا جائے

فیصلہ مختصر دیا جائے
 ہم پہ الزام دھر دیا جائے
 اتنی چاہت سے مانگتے ہیں سب
 کس کے کہنے پہ سر دیا جائے؟
 قبضہ کر کے وہ بیٹھ جاتا ہے
 جس کو اس دل میں گھر دیا جائے

Friday, 14 June 2013

بات کب عشق کی ہونٹوں سے بیاں ہوتی ہے

بات کب عشق کی ہونٹوں سے بیاں ہوتی ہے
عشق ہوتا ہے تو آنکھوں میں زباں ہوتی ہے
بولتے رہتے ہیں جب، کچھ بھی نہیں کہہ پاتے
بات جب بنتی ہے، تب بات کہاں ہوتی ہے
اپنی اپنی ہے یہ توفیق کہ گزرے کیسے
یہ مگر سچ ہے کہ ہر رات جواں ہوتی ہے

میرا وہ ہو کے بھی مجھ سے بہت جدا نکلا

میرا وہ ہو کے بھی مجھ سے بہت جُدا نکلا
دلوں میں رہ کے بھی مِیلوں کا فاصلہ نکلا
میں چھوٹی چھوٹی سی خُوشیاں بٹور کر خُوش تھا
مگر نصیب کا دامن پھٹّا ہوا نکلا
میں اس کے پنجرے میں رہ کر بھی خُوش رہا لیکن
اُڑا ذرا سا جو ایک دن تو پَر کَٹا نکلا

کون گاؤں سے آئے ہیں ہم گاؤں کون سے جانا ہے

کون گاؤں سے آئے ہیں ہم، گاؤں کون سے جانا ہے
بھٹک رہے ہیں، پتہ نہیں کچھ، ہر رَستہ انجانا ہے
چھوڑ کے آئے دودھ کی ندیاں، چلے تھے ہم جس گاؤں سے
اب تو شہروں میں رہنا ہے، چِھین جَھپٹ کر کھانا ہے
اُمیدوں کے تیر چلائے خواہشات کے جنگل میں
کوئی نہ تیر لگا پر مانیں کیسے غلط نشانہ ہے

اب سرابوں کا اثر صاف نظر آتا ہے

اب سرابوں کا اثر صاف نظر آتا ہے
کھو گیا ہے وہ مگر صاف نظر آتا ہے
سوچنے سے وہ نظر آئے، نہ آئے لیکن
بند آنکھیں ہوں اگر، صاف نظر آتا ہے
دُھندلے دُھندلے کئی چہرے ہیں میری آنکھوں میں
ایک چہرہ وہ مگر صاف نظر آتا ہے

عرصہ ہوا ہے اب وہ بلاتا نہیں ہمیں

عرصہ ہوا ہے اب وہ بُلاتا نہیں ہمیں
اتنا خفا ہوا کہ ستاتا نہیں ہمیں
اس سے ملے بغیر بھی بے چین تھے، مگر
اب چَین اس سے مِل کے بھی آتا نہیں ہمیں
ہم غم پہ ہنس رہے ہیں اسے ہم سے کیا مِلا
کیوں پھر بھی چھوڑ کر کہیں جاتا نہیں ہمیں

جہاں میں آج کسی کو کسی سے پیار نہیں

جہاں میں آج کسی کو کسی سے پیار نہیں
ضرورتوں کی تجارت میں کوئی یار نہیں
کِھلے ہیں پھول کچھ اتنے جہاں میں کاغذ کے
بہار کا کسی گلشن کو انتظار نہیں
تھا وہ بھی وقت کہ باتوں پہ تھا یقین ہمیں
اب آنکھ سے بھی جو دیکھا ہے اعتبار نہیں

جس کا جی چاہے فقیروں کی دعا لے جائے

جس کا جی چاہے فقیروں کی دُعا لے جائے
کل ہمیں جانے کہاں وقت اُٹھا لے جائے
خدمتِ خلق سے ہستی کو فروزاں کر لے
کیا پتہ کون سی ظُلمت میں قضا لے جائے
اس لیے کوئی جہاں سے نہ گیا کچھ لے کر
کیا ہے دُنیا میں، کوئی ساتھ بھی کیا لے جائے

دل کو کیا کہہ کر سمجھائیں دشمن اپنا یار ہو جب

دل کو کیا کہہ کر سمجھائیں دشمن اپنا یار ہو جب
درد سے کیسے جان بچائیں ظالم سے ہی پیار ہو جب
گھنٹوں اس کے سامنے بیٹھا، سمجھ نہیں پایا کچھ بھی
اس کے من میں کیسے جھانکیں پلکوں کی دیوار ہو جب
اپنے ہیں وہ، جو راہوں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں
کب تک، کیسے، کون بچے پھر، قدم قدم پر وار ہو جب

یوں تو ساقی کا مرے کام وہی ہوتا ہے

یوں تو ساقی کا میرے کام وہی ہوتا ہے
پر وہ چھلکا دے جسے جام وہی ہوتا ہے
جتنے قصے بھی محبت کے سنو دنیا میں
جو بھی آغاز ہو، انجام وہی ہوتا ہے
عشق کرتے ہو تو پھر غم سے بچو گے کیسے
عشق والوں کا تو انعام وہی ہوتا ہے

مجبوریوں میں بک گئے کچھ مفلسوں کے تن

مجبوریوں میں بِک گئے کچھ مفلسوں کے تن
ان کو ہوس نے لوٹ لیا ڈال کر کفن
مجبور کرنے والوں پہ کوئی سزا نہ تھی
مجبورِ حال نے ہی کیا جرم بھی سہن
بچوں کی بھوک جن کو جگائے تمام رات
آنکھوں میں ایسی ماؤں کے کیسے نہ ہو تھکن

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فُرصت ہم کو
روشنی کا یہ مسافر ہے، رہِ جاں کا نہیں
اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو
آنکھ اب کس سے تحیّر کا تماشا مانگے؟
اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں

مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے، مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نئے ہمسفر تلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

دلوں میں آگ، لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دُہری نقاب رکھتے ہیں
ہمیں چراغ سمجھ کر بُجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں
اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں

لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے

لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آ ہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اسکی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آ سکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں، آگ لگانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے
اے مرے دشت مزا جو یہ مری آنکھیں ہیں
ان سے رومال بھی چھو جائے تو بادل ہو جائے
چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دلداری کا
عاشقی دِین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے

Sunday, 9 June 2013

یہ نہیں کی باب حریم سے جو طلب کیا وہ ملا نہیں

یہ نہیں کی بابِ حریم سے جو طلب کیا وہ مِلا نہیں
 مگر اتنی بات ضرور ہے، کہ اثر بقدرِ دُعا نہیں
 میں فریبِ مرگ سے دُور ہوں کہ تیرا ہی پرتوِ نُور ہوں
 میری عمر عمرِ دوام ہے، مجھے اعتقادِ فنا نہیں
 قسم ارتکابِ گناہ کی، قسم التفاتِ نگاہ کی
 وہ نہ مرتبہ کوئی پا سکا، جو تیری نظر سے گِرا نہیں

ساقی نظر سے پنہاں شیشے تہی تہی سے

ساقی نظر سے پنہاں، شیشے تہی تہی سے
باز آئے ہم تو ایسی بے کیف زندگی سے
کس شوق، کس تمنّا، کس درجہ سادگی سے
ہم آپ کی شکایت کرتے ہیں آپ ہی سے
اے میرے ماہ کامل! پھر آشکارا ہو جا
اُکتا گئی طبیعت تاروں کی روشنی سے

Friday, 7 June 2013

جادہ راہ عدم ہے رہ کاشانہ عشق

جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
 ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
 مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
 آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
 دونوں عالم ہیں دو مصرع درِ خانۂ عشق

Monday, 3 June 2013

ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی
سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟
تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں

کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رُخساروں سے رنگینئ حُسن کو بڑھنے دو
سُنتے ہیں‌ کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اُٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دُشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

اجبنی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے

گیت/غزل

اس اندھیرے کے سنسان جنگل میں ہم ڈگمگاتے رہے مسکراتے رہے
لَو کی مانند ہم لڑکھڑاتے رہے، پر قدم اپنے آگے بڑھاتے رہے
اجنبی شہر میں اجنبی راستے، میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا، میں بہت تھک گیا، اس لیے سن کے بھی ان سنی کر گیا
کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کرن بھی نہ جہاں تک پہنچے
میں نے آنکھوں‌ میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے
بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہو گا
اس سے پہلے کے یہی بات زباں تک پہنچے

کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے

کٹ ہی گئی جدائی بھی، کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے، میرے بھی دن گزر گئے
وقت ہی کچھ جدائی کا ، اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے، جتنے تھے زخم، بھر گئے
تیرے لیے چلے تھے ہم، تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے، تو نے کہا تو مر گئے

Sunday, 2 June 2013

عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے

عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے
 زندگی، آئینہ خانے میں گزر جاتی ہے
 شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا
 اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے
 ہر محبت کے لئے دل میں الگ خانہ ہے
 ہر محبت اسی خانے میں گزر جاتی ہے

تیرے جانے سے زیادہ ہیں نہ کم پہلے تھے

 تیرے جانے سے زیادہ ہیں، نہ کم پہلے تھے
 ہم کو لاحق ہیں وہی اب بھی جو غم پہلے تھے
 کوئی راہرو ہی ملا، اور نہ کوئی نقشِ قدم
 عشق کی راہ میں لگتا ہے کہ ہم پہلے تھے
 میں نے تیشے سے مقدر کی لکیریں بدلیں
 اب نہیں سانحے قسمت میں رقم پہلے تھے

دشت تنہائی میں بے کار ہوا کرتے ہیں

دشت تنہائی میں بے کار ہوا کرتے ہیں
 ہم تِرے ہجر میں مسمار ہوا کرتے ہیں
جب ترے روپ کو آنکھوں میں سجاتا ہوں تو یار
 روح کے دشت بھی گلزار ہوا کرتے ہیں
تیرگی اپنے مقدر میں بسی ہے، لیکن
 ہم تِرے لمس سے ضوبار ہوا کرتے ہیں

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا
پھر دوپہر کے وقت کو رُکوا دیا گیا
خوشرنگ موسموں کی کہانی گھڑی گئی
مصنوعی خوشبووں کا حوالہ دیا گیا
پہرے بٹھا دیے گئے کلیوں پہ جبر کے
بادِ صبا کو دیس نکالا دیا گیا

Saturday, 1 June 2013

کس کا جمال ناز ہے جلوہ نما یہ سو بہ سو

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

 کس کا جمال ناز ہے جلوہ نما یہ سُو بہ سُو
گوشہ بگوشہ دربدر قریہ بہ قریہ کُو بہ کُو
اشک فشاں ہے کس لیے، دیدۂ منتظر میرا
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جُو بہ جُو
میری نگاہِ شوق میں حُسنِ ازل ہے بے حجاب
غُنچہ بہ غُنچہ گُل بہ گُل لالہ بہ لالہ بُو بہ بُو

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
 گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
 صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
 صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم
 صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
 یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

اجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی

اُجلا ترا برتن ہے اور صاف ترا پانی
 اِک عمر کا پیاسہ ہوں مجھ کو بھی پلا پانی
 ہے اِک خطِ  نادیدہ دریائے محبت میں
 ہوتا ہے جہاں آ کر پانی سے جُدا پانی
 دونوں ہی تو سچے تھے، الزام کسے دیتے
 کانوں نے کہا صحرا آنکھوں نے سُنا پانی

یہ جو ایک دست سوال ہے ترے سامنے

یہ جو ایک دستِ سوال ہے تِرے سامنے
 کوئی غم سے کتنا نڈھال ہے ترے سامنے
 میں پڑا ہوں قریۂ ہجر کے اسی کنج میں
 مگر ایک شہرِ وصال ہے ترے سامنے
 یہاں عرضِ حال پہ کس کو اتنا عبور ہے
 یہاں کس کی اتنی مجال ہے ترے سامنے