جہاں میں آج کسی کو کسی سے پیار نہیں
ضرورتوں کی تجارت میں کوئی یار نہیں
کِھلے ہیں پھول کچھ اتنے جہاں میں کاغذ کے
بہار کا کسی گلشن کو انتظار نہیں
تھا وہ بھی وقت کہ باتوں پہ تھا یقین ہمیں
اب آنکھ سے بھی جو دیکھا ہے اعتبار نہیں
بتائیں کیا کہ اب حالات پر زمانے کے
یہ لگ رہا ہے خدا کا بھی اختیار نہیں
نہ جان دینا ابھی رازؔ دوستی میں کہیں
ابھی وفاؤں کا ماحول سازگار نہیں
ضرورتوں کی تجارت میں کوئی یار نہیں
کِھلے ہیں پھول کچھ اتنے جہاں میں کاغذ کے
بہار کا کسی گلشن کو انتظار نہیں
تھا وہ بھی وقت کہ باتوں پہ تھا یقین ہمیں
اب آنکھ سے بھی جو دیکھا ہے اعتبار نہیں
بتائیں کیا کہ اب حالات پر زمانے کے
یہ لگ رہا ہے خدا کا بھی اختیار نہیں
نہ جان دینا ابھی رازؔ دوستی میں کہیں
ابھی وفاؤں کا ماحول سازگار نہیں
رازدان راز
No comments:
Post a Comment