نشاطِ ہجر میں خود کو فنا کروں گا میں
تجھے بتا بھی رہا ہوں کہ جا، کروں گا میں
میں ایسے شعر کہوں گا کہ تُو نظر آئے
سماعتوں میں بصارت بھرا کروں گا میں
نہ کوئی جھانکتی آنکھیں، نہ ادھ کھلی کھڑکی
میں اب بھی "چاہ" سے نکلا تو مصر جاؤں گا
جو واقعہ ہے پرانا، نیا کروں گا میں
نہ کوئی وصل کی خواہش، نہ شوقِ دلداری
اب اس گناہ کی تشریح کیا کروں گا میں
میرے سکوں کا وہ بچپن گزارتا رہے گا
اور اسکے غم کی جوانی جیا کروں گا میں
اُٹھا سکے تو اُٹھا حشر، اے دلِ بزدل
کہاں تلک تیری دھک دھک سنا کروں گا میں
یہ میری قید میں ممتازؔ خوش نہیں رہتے
اب اپنی آنکھ کے پنچھی رھا کروں گا میں
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment