Monday 3 June 2013

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کرن بھی نہ جہاں تک پہنچے
میں نے آنکھوں‌ میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے
بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہو گا
اس سے پہلے کے یہی بات زباں تک پہنچے
تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے
آج پندارِ تمنّا کا فسوں ٹوٹ گیا
چند کم ظرف گِلے نوکِ زباں تک پہنچے

اقبال عظیم

No comments:

Post a Comment