Monday 3 June 2013

اجبنی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے

گیت/غزل

اس اندھیرے کے سنسان جنگل میں ہم ڈگمگاتے رہے مسکراتے رہے
لَو کی مانند ہم لڑکھڑاتے رہے، پر قدم اپنے آگے بڑھاتے رہے
اجنبی شہر میں اجنبی راستے، میری تنہائی پر مسکراتے رہے
میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے
کل کچھ ایسا ہوا، میں بہت تھک گیا، اس لیے سن کے بھی ان سنی کر گیا
کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں، دل کے زخموں کے در کھٹکھٹاتے رہے
زہر ملتا رہا، زہر پیتے رہے، روز مرتے رہے، روز جیتے رہے
زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی، اور ہم بھی اسے آزماتے رہے
سخت حالات کے تیز طوفان میں گھِر گیا تھا ہمارا جنونِ وفا
وہ چراغِ تمنا بجھاتا رہا،۔۔ ہم چراغِ تمنا جلاتے رہے
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا، زندگی کی طرف اک دریچہ کھُلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے
ایک بیچارہ میں، اور ہر سمت ہے اس جہاں کا جنونِ فسانہ گری
اتنے الزام مجھ پر لگائے گئے، بے گناہی کے انداز جاتے رہے

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment