Friday, 14 June 2013

اب سرابوں کا اثر صاف نظر آتا ہے

اب سرابوں کا اثر صاف نظر آتا ہے
کھو گیا ہے وہ مگر صاف نظر آتا ہے
سوچنے سے وہ نظر آئے، نہ آئے لیکن
بند آنکھیں ہوں اگر، صاف نظر آتا ہے
دُھندلے دُھندلے کئی چہرے ہیں میری آنکھوں میں
ایک چہرہ وہ مگر صاف نظر آتا ہے
پھر نہ زخمی کوئی ہو جائے نظر سے اس کی
اس کی آنکھوں میں یہ ڈر صاف نظر آتا ہے
کچھ الگ سا ہی وہ دِکھتا ہے اُجالوں میں مجھے
میرے خوابوں میں وہ پر صاف نظر آتا ہے
بُھولنے کی اسے کرتا ہوں میں جب بھی کوشش
ذہن پر دل کا اثر صاف نظر آتا ہے
رازؔ یادوں کے بھی اب سائے ہیں دُھندلے دُھندلے
ختم ہوتا یہ سفر صاف نظر آتا ہے

رازدان راز

No comments:

Post a Comment