Friday, 14 June 2013

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے

دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے
اے مرے دشت مزا جو یہ مری آنکھیں ہیں
ان سے رومال بھی چھو جائے تو بادل ہو جائے
چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دلداری کا
عاشقی دِین نہیں ہے کہ مکمل ہو جائے
حالتِ ہجر میں جو رقص نہیں کر سکتا
اسکے حق میں یہی بہتر ہے کہ پاگل ہو جائے
میرا دل بھی کسی آسیب زدہ گھر کی طرح
خود بخود کھلنے لگے خود ہی مقفّل ہو جائے
ڈوبتی ناؤ میں سب چیخ رہے ہیں تابشؔ
اور مجھے فکر غزل میری مکمل ہو جائے

عباس تابش

No comments:

Post a Comment