دی ہے وحشت تو یہ وحشت ہی مسلسل ہو جائے
رقص کرتے ہوئے اطراف میں جنگل ہو جائے
اے مرے دشت مزا جو یہ مری آنکھیں ہیں
ان سے رومال بھی چھو جائے تو بادل ہو جائے
چلتا رہنے دو میاں سلسلہ دلداری کا
حالتِ ہجر میں جو رقص نہیں کر سکتا
اسکے حق میں یہی بہتر ہے کہ پاگل ہو جائے
میرا دل بھی کسی آسیب زدہ گھر کی طرح
خود بخود کھلنے لگے خود ہی مقفّل ہو جائے
ڈوبتی ناؤ میں سب چیخ رہے ہیں تابشؔ
اور مجھے فکر غزل میری مکمل ہو جائے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment