Tuesday 18 June 2013

متصل آنکھ رعایا کی رہی پانی سے

مُتصل آنکھ رعایا کی رہی پانی سے
سب کوشکوہ ہے محبت کی مہارانی سے
تتلیاں رنگ چُرانے کو چلی آئی تھیں
اِک نیا پھُول کھِلا تھا بڑی تابانی سے
اب بھی اس راجکماری کے بدن کی خُوشبو 
آنے لگتی ہے مجھے صحن کی ویرانی سے
جب سے اترا ہے جبینوں سے حیا کا جھُومر 
دل کو فُرصت ہے کہاں اپنی نگہبانی سے
میں نے کب ہجر میں آنکھوں کو بچانا چاہا
کب میں مُنکر ہوں کسی قصۂ قرآنی سے
میں نے ممتازؔ اچھالےتھے ہوا میں آنسو 
اس نے ہر بات سمجھ لی بڑی آسانی سے

ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment