Sunday 9 June 2013

یہ نہیں کی باب حریم سے جو طلب کیا وہ ملا نہیں

یہ نہیں کی بابِ حریم سے جو طلب کیا وہ مِلا نہیں
 مگر اتنی بات ضرور ہے، کہ اثر بقدرِ دُعا نہیں
 میں فریبِ مرگ سے دُور ہوں کہ تیرا ہی پرتوِ نُور ہوں
 میری عمر عمرِ دوام ہے، مجھے اعتقادِ فنا نہیں
 قسم ارتکابِ گناہ کی، قسم التفاتِ نگاہ کی
 وہ نہ مرتبہ کوئی پا سکا، جو تیری نظر سے گِرا نہیں
 وہی ایک سجدہ ہے کارگر، جو ہو فکرِ معاش سے ماورأ
 وہ ہزار سجدے فضول ہیں، جو رہینِ لغزشِ پا نہیں
 میں شکیلؔ دل کا ہوں ترجماں، کہ محبتوں کا ہوں رازداں
 مجھے فخر ہے میری شاعری، میری زندگی سے جدا نہیں

شکیل بدایونی

No comments:

Post a Comment