حُسن فانی ہے، جوانی کے فسانے تک ہے
پر یہ کمبخت محبت تو زمانے تک ہے
وہ ملے گا تو شناسائی دلوں تک ہو گی
اجنبیّت تو فقط سامنے آنے تک ہے
شاعری پیروں، فقیروں کا وظیفہ تھا کبھی
دشت میں پاؤں دھرا تھا کبھی وحشت کے بغیر
اب وہی ریت مِرے آئینہ خانے تک ہے
چاند گردُوں کو میسّر ہے سحر ہونے تک
رقصِ درویش، ترے بام پہ آنے تک ہے
میں محمدؐ کے غلاموں کا غلام، ابنِ غلام
ایسے نِسبت، اسی پاکیزہ گھرانے تک ہے
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment