Friday 14 June 2013

لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے

لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آ ہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اسکی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آ سکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں، آگ لگانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
سر سے جاتا ہی نہیں‌ وعدۂ فردا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے
ہم نہ کہتے تھے تجھے، وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں‌
دُھوپ کی نذر ہوئے پیٹر لگانے والے
گھر میں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیں‌ سلیمؔ
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment