Saturday 1 June 2013

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
 گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم
 صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے
 صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم
 صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ہے ایک دن
 یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم
 کوئی پکارتا ہے ہر اِک حادثے کے ساتھ
 تخلیق کائناتِ دِگر کر رہے ہیں ہم
 ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ
 یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment