Saturday 15 June 2013

فیصلہ مختصر دیا جائے

فیصلہ مختصر دیا جائے
 ہم پہ الزام دھر دیا جائے
 اتنی چاہت سے مانگتے ہیں سب
 کس کے کہنے پہ سر دیا جائے؟
 قبضہ کر کے وہ بیٹھ جاتا ہے
 جس کو اس دل میں گھر دیا جائے
دل ہے بے بس، پھڑکتا رہتا ہے
 اس پرندے کو پر دیا جائے
 تم مری ہو یا میں تمہارا ہوں
 اتنا انصاف کر دیا جائے
 ہم نے یہ فیصلہ کیا، پھر دل
 تجھ کو اے بے خبر! دیا جائے
 دل کا جنگل جلا دیا جائے
 اُس نظر کا شرر دیا جائے
 پیار، دل، پیاس اور ترا کہنا
 اس پیالے کو بھر دیا جائے
 میری توبہ ہے میں نہیں کہتا
 درد بارِ دگر دیا جائے
 جان تو چاندنی میں دریا ہوں
 دشت کو طشتِ زر دیا جائے

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment