Tuesday, 18 June 2013

گل کھلاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں

گُل کھلاتی ہوئی شاداب زمیں چاہتے ہیں
اور کیا تجھ سے ترے خاک نشیں چاہتے ہیں
ہم کو منظور نہیں پھر سے بچھڑنے کا عذاب
اس لیے تجھ سے ملاقات نہیں چاہتے ہیں
کب تلک در پہ کھڑے رہنا ہے، اُن سے پوچھو
کیا وہ محشر کا تماشا بھی یہیں چاہتے ہیں؟
وہ جو کھڑکی میں اُسی طرح جلاتے ہیں چراغ
اس کا مطلب ہے ہمیں پردہ نشیں چاہتے ہیں
کون وعدوں پہ جیے حشر تلک، ظلم سہے
تیرے بندے، تیرا انصاف یہیں چاہتے ہیں
اتنی اونچی ہے کہ اب بیل کا دَم گُھٹتا ہے
جانے دیوار سے کیا گھر کے مکیں چاہتے ہیں

ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment