عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
سجدے خدا کو کرتا ہے انسان ریت پر
ابنِ علیؓ ولی کا ہے احسان ریت پر
جلنے لگی تھی شام بھی خیموں کے ساتھ ساتھ
اور جل رہا تھا خُلد کا سامان ریت پر
تب سے یزیدیوں کو ہے چُپ سی لگی ہوئی
تاریخ لکھ رہی تھی نیا باب عشق کا
بیٹھا ہوا تھا وقت کا سلطان ریت پر
یہ اور بات آنکھ نے دیکھا لہو لہو
سارا سفر تھا ریت کا، میدان ریت پر
تِیروں نے باپ بیٹی کو مِلنے نہیں دیا
دونوں ہی دیکھتے رہے حیران ریت پر
لاشے تھے سیّدوں کے یا رِشتوں کا قتل تھا
بِکھرے پڑے تھے بہنوں کے ارمان ریت پر
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment