پتے خزاں کی نذر کیے، اور پُھول بھی
آخر شجر نے جھاڑ دی شاخوں سے دُھول بھی
مجھ کو زمیں پہ بھیج دیا آسمان سے
تجھ سے معاف ہو نہ سکی ایک بُھول بھی
پہلے تو اس نے راستے کانٹوں سے بھر دیے
آمین کہنے والے ہیں جب سے خفا خفا
لگتا ہے بند ہو گیا بابِ قبُول بھی
میں زندگی میں اور کوئی کام کر سکوں
اے دل تُو اُس نگاہ کو اتنا تو بُھول بھی
کب تک رہے گا دل میں، کبھی جسم سے بھی کھیل
بانہوں کو میری پینگھ بنا اور جُھول بھی
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment