کتنا مُشکل ہے تِرا ہِجر بِتانا مرے دوست
تُو کسی روز مجھے دیکھنے آنا مرے دوست
اِک طرف دل کی صدا آئی کہ میں ڈُوب چلا
اِک طرف آنکھ پکاری کہ بچانا مرے دوست
نیند پھر آنکھ کی سرحد سے نِکل جائے گی
عشق پِیری میں بھی انساں کو جواں رکھتا ہے
ہِجر ہوتا ہے کسی طور پرانا مرے دوست؟
تُو مجھے جان جو کہتا ہے، جدا کرتے ہوئے
اچھا لگتا ہے مرا جان سے جانا مرے دوست؟
تُجھ کو ہر زخم الگ کر کے دِکھاؤں کیسے؟
تُو سمجھتا ہی نہیں، تُجھ سے کہا ناں مرے دوست
آخری بار دھڑکتا ہوا دل دیکھنے دے
میرے سینے سے ذرا ہاتھ ہٹانا مرے دوست
تِتلیاں پُھول سمجھتی تھیں مرے رنگوں کو
اب نہ وہ رنگ، نہ رنگوں کا زمانہ مرے دوست
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment