یہ جو ایک دستِ سوال ہے تِرے سامنے
کوئی غم سے کتنا نڈھال ہے ترے سامنے
میں پڑا ہوں قریۂ ہجر کے اسی کنج میں
مگر ایک شہرِ وصال ہے ترے سامنے
یہاں عرضِ حال پہ کس کو اتنا عبور ہے
یہاں کس کی اتنی مجال ہے ترے سامنے
مِرے آئینے مِری عاجزی سے کلام کر
تِرا ایک واقفِ حال ہے ترے سامنے
میں دِیا جلا کے منڈیر پر نہیں رکھ سکا
تُو ہوا ہے جلنا محال ہے ترے سامنے
کوئی غم سے کتنا نڈھال ہے ترے سامنے
میں پڑا ہوں قریۂ ہجر کے اسی کنج میں
مگر ایک شہرِ وصال ہے ترے سامنے
یہاں عرضِ حال پہ کس کو اتنا عبور ہے
یہاں کس کی اتنی مجال ہے ترے سامنے
مِرے آئینے مِری عاجزی سے کلام کر
تِرا ایک واقفِ حال ہے ترے سامنے
میں دِیا جلا کے منڈیر پر نہیں رکھ سکا
تُو ہوا ہے جلنا محال ہے ترے سامنے
سلیم طاہر
No comments:
Post a Comment