Sunday 2 June 2013

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا

پہلے سفر نصیب کو صحرا دیا گیا
پھر دوپہر کے وقت کو رُکوا دیا گیا
خوشرنگ موسموں کی کہانی گھڑی گئی
مصنوعی خوشبووں کا حوالہ دیا گیا
پہرے بٹھا دیے گئے کلیوں پہ جبر کے
بادِ صبا کو دیس نکالا دیا گیا
ویران کر کے چاندنی کی کھیتیاں سبھی
اہلِ ہنر کو ایک دریچہ دیا گیا
ہر کم نسب کو محترم جانا گیا یہاں
جو بھی نجیب تھا اسے طعنہ دیا گیا
رکھوا کے سب چراغ کھلے آسماں تلے
بے مہر آندھیوں کو اشارہ دیا گیا
کھولا گیا محاذ کسی اور سمت میں
دشمن کو اور سمت سے رستہ دیا گیا
اونچے منارے اور بھی اونچے کئے گئے
مزدور کو معاوضہ آدھا دیا گیا
جو زندگی کی مانگ سجاتے رہے سدا
قسطوں میں بانٹ کر انہیں جینا دیا گیا
ہم بھی تھے خیر مانگنے والوں میں اس لئے
ہم کو فصیلِ شہر میں چنوا دیا گیا
چارہ گری کے نام پر اظہرؔ ہمیں یہاں
جو بھی زخم دیا گیا، گہرا دیا گیا

 اظہر ادیب 

No comments:

Post a Comment