سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
گزر گیا میں زمانے پہ وار کرتا ہوا
خزاں رسِیدہ بدن، جس کا منتظر تھا وہ شخص
کبھی نہ آیا خزاں کو بہار کرتا ہوا
یہ واقعہ بھی عجب ہے، میں ہنس پڑا خود پر
نجانے کس کی جُدائی میں جل رہا تھا چاند
سمندروں کا بھرم تارتار کرتا ہوا
بلائیں شہر کی لے کر چلا گیا درویش
دعائیں دیتا ہوا، اشکبار کرتا ہوا
میں رفتگاں کی محبت میں چل پڑا آخر
فریب کھاتا ہوا، اعتبار کرتا ہوا
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment