Tuesday 18 June 2013

سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا

سبھی کے سامنے آنکھوں کو چار کرتا ہوا
گزر گیا میں زمانے پہ وار کرتا ہوا
خزاں رسِیدہ بدن، جس کا منتظر تھا وہ شخص
کبھی نہ آیا خزاں کو بہار کرتا ہوا
یہ واقعہ بھی عجب ہے، میں ہنس پڑا خود پر
گئے دنوں کی اذیّت شمار کرتا ہوا
نجانے کس کی جُدائی میں جل رہا تھا چاند
سمندروں کا بھرم تارتار کرتا ہوا
بلائیں شہر کی لے کر چلا گیا درویش
دعائیں دیتا ہوا، اشکبار کرتا ہوا
میں رفتگاں کی محبت میں چل پڑا آخر
فریب کھاتا ہوا، اعتبار کرتا ہوا

ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment