مجھ کو سناں کی نوک پہ سر چھوڑنا پڑا
قاتل کو اس کے بعد ہنر چھوڑنا پڑا
اس مہ جبیں نے بام پہ کھولے سیاہ بال
پریوں کو اپنا قاف نگر چھوڑنا پڑا
کھنچتی لکیر سہہ نہ سکا گھر کے صحن میں
سایہ فگن رہا تو رہا سب کے دل کا چین
گرنے لگا تو سب کو شجر چھوڑنا پڑا
اے دوست، میری وحشتِ آخر نہ آزما
تجھ کو بھی چھوڑ دوں گا، اگر چھوڑنا پڑا
جاتا نہیں ہے آنکھ سے اس کی، لہو کا رنگ
رو رو کے جس کو یار کا در چھوڑنا پڑآ
منزل مرے قریب تھی، لیکن رکھا بھرم
وہ رک گیا تو مجھ کو سفر چھوڑنا پڑا
ممتازؔ اس نے تاک سے جھانکا نہ پھر کبھی
مجھ کو بھی اس گلی کا گزر چھوڑنا پڑا
ممتاز گورمانی
No comments:
Post a Comment