Tuesday 18 June 2013

مجھ کو سناں کی نوک پہ سر چھوڑنا پڑا

مجھ کو سناں کی نوک پہ سر چھوڑنا پڑا
قاتل کو اس کے بعد ہنر چھوڑنا پڑا
اس مہ جبیں نے بام پہ کھولے سیاہ بال
پریوں کو اپنا قاف نگر چھوڑنا پڑا
کھنچتی لکیر سہہ نہ سکا گھر کے صحن میں
آخر ضعیف باپ کو گھر چھوڑنا پڑا
سایہ فگن رہا تو رہا سب کے دل کا چین
گرنے لگا تو سب کو شجر چھوڑنا پڑا
اے دوست، میری وحشتِ آخر نہ آزما
تجھ کو بھی چھوڑ دوں گا، اگر چھوڑنا پڑا
جاتا نہیں ہے آنکھ سے اس کی، لہو کا رنگ
رو رو کے جس کو یار کا در چھوڑنا پڑآ
منزل مرے قریب تھی، لیکن رکھا بھرم
وہ رک گیا تو مجھ کو سفر چھوڑنا پڑا
ممتازؔ اس نے تاک سے جھانکا نہ پھر کبھی
مجھ کو بھی اس گلی کا گزر چھوڑنا پڑا

ممتاز گورمانی

No comments:

Post a Comment