Sunday 23 June 2013

کبھی اداس کبھی خوش ہے آنسوؤں کی طرح

کبھی اداس کبھی خوش ہے آنسوؤں کی طرح
مزاج دل کا بدلتا ہے موسموں کی طرح
تمام رات جو چھایا رہا دھواں بن کر
برس پڑا میری آنکھوں سے بادلوں کی طرح
وہ اک سکوت جو پنہاں تھا اس کے جلوے میں
پگھل گیا میرے رستے میں آہٹوں کی طر
تمام شہر میں بس اس کو دیکھنا چاہوں
وہ ایک شخص جو ملتا ہے دشمنوں کی طرح
وہ تیرگی کا تلاطم تھا یا نظر کا سراب
بچھڑ گیا میرا سایہ بھی دوستوں کی طرح
پلک جھپکتے ہی جو آنکھ سے ہوا اوجھل
وہ لوٹ کر نہیں آیا گئے دنوں کی طرح

افتخار نسیم افتی

No comments:

Post a Comment