Monday 3 June 2013

کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں

کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
پونچھو نہ عرق رُخساروں سے رنگینئ حُسن کو بڑھنے دو
سُنتے ہیں‌ کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اُٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دُشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ نجانے کیوں ضد ہے ان کو شبِ فُرقت والوں سے
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسُو کو سنوارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مُجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈُوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں
کچھ حپسن و عشق میں فرق نہیں، ہے بھی تو فقط رُسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے، ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں
تاروں کی بہاروں میں ‌بھی قمرؔ! تم افسُردہ سے رہتے ہو
پُھولوں کو تو دیکھو کانٹوں میں ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment