Friday, 14 June 2013

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

دلوں میں آگ، لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دُہری نقاب رکھتے ہیں
ہمیں چراغ سمجھ کر بُجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں
اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں
یہ میکدہ ہے، وہ مسجد ہے، وہ ہے بتخانہ
کہیں بھی جاؤ, فرشتے حساب رکھتے ہیں
ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے
یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment