دلوں میں آگ، لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دُہری نقاب رکھتے ہیں
ہمیں چراغ سمجھ کر بُجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں
یہ میکدہ ہے، وہ مسجد ہے، وہ ہے بتخانہ
کہیں بھی جاؤ, فرشتے حساب رکھتے ہیں
ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے
یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں
راحت اندوری
No comments:
Post a Comment