وہ تھکاوٹ ہے کہ سب لوگ ہیں پتھرائے ہوئے
کہاں جاتے ہیں بتا راستے بَل کھائے ہوئے
آپ اک بار محبت سے پکاریں تو سہی
ہم تو قبروں سے بھی اُٹھ آئیں گے دفنائے ہوئے
ہار جانا تو مقدر میں لکھا تھا، لیکن
ہار گردن سے اُتارے گئے پہنائے ہوئے
تم بھی ملبُوس کے پھولوں میں مہک ڈھونڈتے ہو
دُکھ کی دیمک تو ہے اندر سے ہمیں کھائے ہوئے
دھوپ سے بچ کے کہاں جاتے کہ افضل گوہرؔ
پیڑ تنکوں کی طرح تھے سو کہاں سائے ہوئے
کہاں جاتے ہیں بتا راستے بَل کھائے ہوئے
آپ اک بار محبت سے پکاریں تو سہی
ہم تو قبروں سے بھی اُٹھ آئیں گے دفنائے ہوئے
ہار جانا تو مقدر میں لکھا تھا، لیکن
ہار گردن سے اُتارے گئے پہنائے ہوئے
تم بھی ملبُوس کے پھولوں میں مہک ڈھونڈتے ہو
دُکھ کی دیمک تو ہے اندر سے ہمیں کھائے ہوئے
دھوپ سے بچ کے کہاں جاتے کہ افضل گوہرؔ
پیڑ تنکوں کی طرح تھے سو کہاں سائے ہوئے
افضل گوہر
No comments:
Post a Comment