Friday 14 June 2013

کون گاؤں سے آئے ہیں ہم گاؤں کون سے جانا ہے

کون گاؤں سے آئے ہیں ہم، گاؤں کون سے جانا ہے
بھٹک رہے ہیں، پتہ نہیں کچھ، ہر رَستہ انجانا ہے
چھوڑ کے آئے دودھ کی ندیاں، چلے تھے ہم جس گاؤں سے
اب تو شہروں میں رہنا ہے، چِھین جَھپٹ کر کھانا ہے
اُمیدوں کے تیر چلائے خواہشات کے جنگل میں
کوئی نہ تیر لگا پر مانیں کیسے غلط نشانہ ہے
دوست یہاں دُشمن جیسے ہیں، پیار میں بھی مکّاری ہے
ان لوگوں سے جھگڑا کیسا، ان کا ساتھ نِبھانا ہے
آنکھ موند کر بیٹھ گئے ہم، گیان دھیان کی باتوں میں
سوچ کہیں تھی، دھیان کہیں تھا، کس کو کیا سمجھانا ہے
چلئے راز اکیلے چلئے ساتھ نہ کوئی جائے گا
جَون گاؤں اب تم جاؤ گے، ساتھ بھی کس کو آنا ہے

رازدان راز

No comments:

Post a Comment