مجھ کو آتا ہے تیمّم، نہ وضُو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے
یوں تو شِکوہ بھی ہمیں آئینہ رُو آتا ہے
ہونٹ سِل جاتے ہیں جب سامنے تُو آتا ہے
ہاتھ دھوئے ہوئے ہوں نِیستی و ہستی سے
شیخ کیا پوچھتا ہے مجھ سے، وضُو آتا ہے
بُتوں کے واسطے تو دِین و اِیماں بیچ ڈالے ہیں
یہ وہ معشوق ہیں جو ہم نے کعبے سے نکالے ہیں
وہ دیوانہ ہوں جس نے کوہ و صحرا چھان ڈالے ہیں
انہیں تلووں سے تو ٹوٹے ہوئے کانٹے نکالے ہیں
تراشی ہیں وہ باتیں، اس سِتم گر نے سرِ محفل
کلیجے سے ہزاروں تیر چُن چُن کر نکالے ہیں
انس اپنے میں کہیں پایا نہ بیگانے میں تھا
کیا نشہ ہے سارا عالم ایک پیمانے میں تھا
آہ، اتنی کاوشیں یہ شور و شر، یہ اضطراب
ایک چٹکی خاک کی، دو پر، یہ پروانے میں تھا
آپ ہی اس نے انا الحق کہہ دیا، الزام کیا
ہوش کس نے لے لیا تھا، ہوش دیوانے میں تھا
جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے
شمع کا حال نہ دیکھا گیا پروانے سے
آتشِ عشق سے جل جل گئے پروانے
پہلے یہ آگ لگی کعبہ و بت خانے سے
ساقیا! گِریۂ غم سے مجھے مجبور سمجھ
خون رِستا ہے یہ ٹوٹے ہوئے پیمانے سے
جب تلک جوشِ جنوں عشق پہ حاوی نہ ہوا
کوئی بھی کام محبت میں مثالی نہ ہوا
مشورہ "ترکِ" تعلق کا "دیا" تھا اس نے
میں تو راضی تھا، مگر دل مِرا راضی نہ ہوا
فیصلے میں بھی کِیا کرتا اسی کے حق میں
وہ تو اچھا ہوا، اس دور کا قاضی نہ ہوا
میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا
مگر یہ سچ ہے کہ جاناں! بہت اداس رہا
نہ بچ کے جا سکا تیرے بدن کی خوشبو سے
ہوا کا جھونکا بھی آشفتۂ حواس رہا
ملی نہ فرصتِ یک لمحہ اس کو اپنے سے
نظر شناس رہا وہ، نہ غم شناس رہا
کچھ عجب طرح کا طوفان اٹھا ہے دل میں
دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں
اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو
وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں
خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت
اس کو تھمنے دو، جو کہرام مچا ہے دل میں
رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے
جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے
فصلِ گُل جو آئی ہے، شامِ غم بھی چمکے گی
ہم نے اشک بوئے تھے، ہم نے دل جلایا ہے
آؤ دام پوچھیں گے، کوئی شخص سنتے ہیں
اپنی عمر کا حاصل، بیچنے کو لایا ہے
اہلِ دل آنکھ جدھر کھولیں گے
اک دبستانِ ہنر کھولیں گے
وہیں رک جائیں گے تاروں کے قدم
ہم جہاں رختِ سفر کھولیں گے
بحر ایجاز خطرناک سہی
ہم ہی اب اس کے بھنور کھولیں گے
اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے
محسوس ہو رہے ہیں دل و جاں نئے نئے
یوں قیدِ زندگی نے رکھا مضطرب ہمیں
جیسے ہوئے ہوں داخلِ زنداں نئے نئے
کس کس سے اس امانتِ دِیں کو بچائیے
ملتے ہیں روز دشمنِ ایماں نئے نئے
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں ہو گئے
دن بدن بڑھتی گئیں اس حسن کی رعنائیاں
پہلے گل پھر گلبدن پھر گل بداماں ہو گئے
آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے دل پھر دلربا پھر دل کے مہمان ہو گئے
ہمارے دل سے مت کھیلو، کھلونا ٹوٹ جائے گا
ذرا سی ٹھیس پہنچے گی، یہ شیشہ ٹوٹ جائے گا
یہاں کے لوگ تو دو گام چل کے چھوڑ دیتے ہیں
ذرا سی دیر میں برسوں کے رشتے توڑ دیتے ہیں
خبر کیا تھی کہ قسمت کا ستارہ ٹوٹ جائے گا
جو ملتے ہیں بظاہر دوست بن کر، رازداں بن کر
عشق کر کے دیکھ لی جو بے بسی دیکھی نہ تھی
اس قدر الجھن میں پہلے زندگی دیکھی نہ تھی
یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اُٹھ جانے کے بعد
میں نے دن میں اس سے پہلے تیرگی دیکھی نہ تھی
آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے
اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی
وہ تو نہ مل سکے، ہمیں رسوائیاں ملیں
لیکن ہمارے عشق کو رعنائیاں ملیں
آنکھوں میں ان کی ڈوب کے دیکھا ہے بارہا
جِن کی تھی آرزو، نہ وہ گہرائیاں ملیں
آئینہ رکھ کے سامنے آواز دی اسے
اس کے بغیر جب مجھے تنہائیاں ملیں
جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے
پردہ اٹھا کے چاہنے والوں کو دیکھیے
دل کیا جگر ہے چاہنے والوں کو دیکھیے
میرے سکوت اپنے سوالوں کو دیکھیے
اب بھی ہیں ایسے لوگ کہ جن سے سبق ملے
دل مردہ ہے تو زندہ مثالوں کو دیکھیے
یہ مشورے بہم اٹھے ہیں چارہ جو کرتے
اب اس مریض کو اچھا تھا قبلہ رو کرتے
زبان رک گئی آخر سحر کے ہوتے ہی
تمام رات کٹی دل سے گفتگو کرتے
سوادِ شہرِ خموشاں کا دیکھیے منظر
سنا نہ ہو جو خموشی کو گفتگو کرتے
جمال پر حجابِ خد و خال کر دیا گیا
نگاہ دے کے دیکھنا محال کر دیا گیا
کمال سارے مائلِ زوال کر دئیے گئے
زوال تھا کہ جسے لازوال کر دیا گیا
ہمارے خالی ہاتھ میں تھما کے کاسۂ طلب
جواب کیا دیا گیا سوال کر دیا گیا
یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں
اب ہو بھی جائے صبح کہ سویا نہیں ہوں میں
دیکھا نہیں ہے خود کو سرِ منزلِ یقیں
جنگل میں واہموں کے تو کھویا نہیں ہوں میں
عرصہ ہوا کہ بوجھ سا سینے پہ ہے مِرے
مدت ہوئی کہ دوستو! رویا نہیں ہوں میں
اب اپنی آنکھ میں مِرے اشکوں کو تھام کر
جانے سے پہلے آ کے یہ حجت تمام کر
اتنی ذرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس "داستانِ" عمر کا اب "اختتام" کر
اے عہدِ ناسپاس! بس حدِ ادب میں رہ
خواہش ہوں میں خدا کی، مِرا احترام کر
بدن بھی میری جاں کب تک رہے گا
کرائے کا مکاں کب تک رہے گا
الاؤ پر "دھواں" رہتا ہے کب تک
زمیں پر آسماں کب تک رہے گا
ہمیں پھر بے زماں ہونا پڑے گا
کہ دورِ جاوداں کب تک رہے گا
یہ کافر بت جنہیں دعویٰ ہے دنیا میں خدائی کا
ملیں محشر میں مجھ عاصی کو صدقہ کبریائی کا
یہ مجھ سے سخت جاں پر شوق خنجر آزمائی کا
خدا حافظ مِرے قاتل! تِری نازک کلائی کا
تم اچھے، غیر اچھا، غیر کی تقدیر بھی اچھی
یہ آخر ذکر کیوں ہے میری قسمت کی برائی کا
آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا
دیکھا کسے کہ شمع سے پروانہ ہو گیا
گُل کر کے شمع سوئے تھے ہم نامراد آج
روشن کسی کے آنے سے کاشانہ ہو گیا
منہ چوم لوں یہ کس نے کہا مجھ کو دیکھ کر
دیوانہ تھا ہی، اور بھی دیوانہ ہو گیا
شرابِ ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طوافِ خم و سبو کرتے
وہ مَل کے دستِ حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو تو حسیں خونِ آرزو کرتے
کلیمؑ کو نہ غش آتا، نہ طور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہارِ آرزو کرتے
وہ کون ہے دنیا میں جسے غم نہیں ہوتا
کس گھر میں خوشی ہوتی ہے ماتم نہیں ہوتا
تم جا کے چمن میں گل و بلبل کو تو دیکھو
کیا لطف تہِ چادرِ شبنم نہیں ہوتا
کیا سُرمہ بھری آنکھوں سے آنسو نہیں گِرتے
کیا مہندی لگے ہاتھوں سے ماتم نہیں ہوتا
بلا ہے عشق، لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلو ہیں ایسے بھی کہ جن میں دل نہیں ہوتا
نشانِ بے نشانی مٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقشِ حق جفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا
جہاں میں ناامیدی کے سوا امید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں، لیکن دل مِرا قائل نہیں ہوتا
اول شب وہ بزم کی رونق شمع بھی تھی پروانہ بھی
رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی
قید کو توڑ کے نکلا جب میں اٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے
دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی
ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر
اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی
کِس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا، ٹوٹ کے "برسا" پانی
رو لئے پھوٹ کے، سینے میں جلن اب کیوں ہے
آگ "پگھلا" کے نکالا ہے یہ "جلتا" پانی
کوئی متوالی گھٹا تھی کہ جوانی کی امنگ
جی "بہا" لے گیا "برسات" کا "پہلا" پانی
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت، وہی خدا ٹھہرے
ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیرِ بے صدا ٹھہرے
سانس ٹھہرے تو دم ذرا ٹھہرے
تیز آندھی میں شمع کیا ٹھہرے