Monday, 14 October 2019

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

نعتِ سرورِ کونینﷺ

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم  دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ

منصب تو ہمیں مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی

‏منصب تو ہمیں مل سکتے تھے لیکن شرط حضوری تھی
یہ شرط ہمیں منظور نہ تھی، بس اتنی سی مجبوری تھی
کہتے ہیں کہیں اک نگری تھی، سلطان جہاں کا جابر تھا
اور جبر کا اذنِ عام بھی تھا، یہ رسم وہاں مجبوری تھی
ہم ٹھوکر کھا کر جب بھی گرے، رہگیروں کو آواز نہ دی
وہ آنکھوں کی معذوری تھی، یہ غیرت کی مجبوری تھی

Sunday, 13 October 2019

چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے

گیت

چراغ دل کا جلاؤ بہت اندھیرا ہے
کہیں سے لوٹ کے آؤ بہت اندھیرا ہے
چراغ دل کا جلاؤ۔۔۔۔۔

کہاں سے لاؤں وہ رنگت گئی بہاروں کی
تمہارے ساتھ گئی روشنی نظاروں کی
مجھے بھی پاس بلاؤ، بہت اندھیرا ہے
چراغ دل کا جلاؤ۔۔۔۔۔

شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم

گیت

شامِ غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم
آ بھی جا! آ بھی جا! آج میرے صنم
شام غم کی قسم 
دل پریشان ہے رات ویران ہے
دیکھ جا کس طرح آج تنہا ہیں ہم
شام غم کی قسم ۔۔۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے

گیت

جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریں گے
جب دل ہی ٹوٹ ۔۔۔۔

الفت کا دِیا ہم نے اس دل میں جلایا تھا
امید کے پھولوں سے اس گھر کو سجایا تھا
اک بھیدی لوٹ گیا

او میرے سونا رے سونا رے سونا رے

گیت

او میرے سونا رے سونا رے سونا رے
دے دوں گی جان جدا مت ہونا رے
میں نے تجھے ذرا دیر میں جانا
ہوا قصور خفا مت ہونا رے
او میرے سونا رے سونا رے سونا

تم بن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آ کے

گیت

تم بِن جاؤں کہاں کہ دنیا میں آ کے
کچھ نہ پھر چاہا کبھی تم کو چاہ کے
تم بن ۔۔۔۔

رہ بھی سکو گے تم کیسے، ہو کے مجھ سے جدا
ہٹ جائیں گی دیواریں، سن کے میری صدا
آنا ہو گا تمہیں میرے لیے 

Wednesday, 9 October 2019

عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں

عمر بھر کا ہوا زیاں جاناں
ہم یہاں، اور تم وہاں جاناں
نیند آئی نہیں کئی دن سے 
خواب ہونے لگے گِراں جاناں
کون جانے تیری مِری الجھن
کون سمجھے گا یہ زباں جاناں

تیرے میرے بھی درمیاں جاناں

تیرے میرے بھی درمیاں جاناں
آ گیا موڑ نا گہاں جاناں
فاصلوں کے طویل صحرا میں
ہم نے دیکھے کئی گماں جاناں
شام ہوتے ہی ساحلِ جاں پہ
ڈوب جاتی ہیں کشتیاں جاناں

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے

تمہاری یاد طاری ہو رہی ہے
بڑی ہی یادگاری ہو رہی ہے
تمہیں تو لوٹ کر آنا نہیں ہے
مجھے تو انتظاری ہو رہی ہے
تِرے اندر کہاں سبزہ اُگے گا
خزاں میں کاشتکاری ہو رہی ہے

میں اب اکتا گیا ہوں فرقتوں سے

میں اب اُکتا گیا ہوں فُرقتوں سے
نکالوں کس طرح تجھ کو رگوں سے
جدائی تاک میں بیٹھی ہوئی تھی
محبت کر رہے تھے مشوروں سے
تجھے میں نے مجھے تُو نے گنوایا
مگر اب فائدہ ان تذکروں سے

Tuesday, 8 October 2019

طناب خیمہ نہ موج بلا سے ڈر کر کھینچ

طنابِ خیمہ نہ موجِ بلا سے ڈر کر کھینچ
اگر حباب ہے آغوش میں سمندر کھینچ
مِرے حریف کھلے دل سے اب شکست بھی مان
نہ یہ کہ فرطِ ندامت سے منہ پہ چادر کھینچ
مبادا کل کسی بسمل پہ رحم آ جائے
کچھ اور روز ابھی تیغِ ناز ہم پر کھینچ

پتھروں کی بستی میں کاروبار شیشے کا

پتھروں کی بستی میں کاروبار شیشے کا
کوئی بھی نہیں کرتا اعتبار شیشے کا
کانچ سے بنے  پُتلے تھوڑی دور چلتے ہیں
چار دن کا ہوتا ہے یہ خمار شیشے کا
بن سنور کے ہرجائی آج گھر سے نکلا ہے
جانے کون ہوتا ہے پھر شکار شیشے کا

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

سامنے اُس کے کبھی اُس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جُنبش نہیں کی
اہلِ محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اُس نے بھی پُرسش نہیں کی
جس قدر اس سے تعلق تھا چلا جاتا ہے
اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی

چھیڑو تو اس حسین کو چھیڑو جو یار ہو

چھیڑو تو اس حسِین کو چھیڑو جو یار ہو
ایسی خطا کرو جو ادب میں شمار ہو
بیٹھی ہے تہمتوں میں وفا یوں گِھری ہوئی
جیسے کسی حسِین کی گردن میں بار ہو
دن رات مجھ پہ کرتے ہو کتنے حسِین ظلم
بالکل مِری پسند کے مختار کار ہو

ضرورت کی خطا کو بھول جاؤ

ضرورت کی خطا کو بھول جاؤ
ہماری التجا کو بھول جاؤ
یہ خوش فہمی بڑی گمراہ کن ہے
محبت اور وفا کو بھول جاؤ
محبت اس سے رکھو جتنی چاہے
مگر اس بے وفا کو بھول جاؤ

بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے

بڑی دلچسپ غفلت ہو گئی ہے
اچانک ان سے الفت ہو گئی ہے
غمِ جاناں بھی گو اک حادثہ ہے
غمِ دوراں سے فرصت ہو گئی ہے
تمہیں کچھ علم ہے کہتی ہے دنیا
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے

رات کتنی مست ہے شوق کیا جوان ہے

رات کتنی مست ہے
شوق کیا جوان ہے
فرشِ گُل ہے زیرِ پا
سر پہ آسمان ہے
ہر نظر ہے التجا
ہر ادا زبان ہے

صنم خانۂ خیال

صنم خانۂ خیال

شیریں لبوں میں خلد کا مفہوم بے نقاب
زلفوں میں جھومتی ہوئی موجِ جنوں نواز
موجِ جنوں نواز میں طوفانِ بے خودی
طوفانِ بے خودی میں تمناؤں کا گداز
باتوں میں لہلہاتی ہوئی جام کی کھنک
اور جام کی کھنک میں بہاروں کے برگ و ساز

Monday, 7 October 2019

تنگی رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا

تنگئ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا
دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا
تجھے کھو کر تو تِری فکر بہت جائز ہے
تجھے پا کر بھی تِرا دھیان رکھا جائے گا کیا
کس بھروسے پہ اذیت کا سفر جاری ہے
دوسرا مرحلہ آسان رکھا جائے گا کیا

بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں

ہوا کے رخ پہ دِیا دھر نہیں گیا تھا میں
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں
یہ اور بات کہ میں نامراد لوٹ آیا
مگر قطار میں لگ کر نہیں گیا تھا میں
سبھی نے دیکھا مجھے اجنبی نگاہوں سے
کہاں گیا تھا، اگر گھر نہیں گیا تھا میں

مڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ

مُڑ کے تکتے نہیں پتوار کو لوگ
ایسے جاتے ہیں ندی پار کو لوگ
میں تو منزل کی طرف دیکھتا ہوں
دیکھتے ہیں مِری رفتار کو لوگ
سائے کا شکر ادا کرنا تھا
سجدہ کرتے رہے دیوار کو لوگ

تیر کر کوئی پار جاتا رہا

تیر کر کوئی پار جاتا رہا 
کشتیوں کا وقار جاتا رہا
جب تک اسکی گرفت ڈھیلی پڑی
میرا شوقِ فرار جاتا رہا
ایک تیرے ذیادہ پینے سے
دوسروں کا خمار جاتا رہا

ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے

ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے
آسماں! تیرے ستاروں سے زمیں اچھی ہے
ماں کے ہونے سے مِری عمرِ رواں ساکن ہے
سر پہ اک ابرِ خنک، سایہ کناں ساکن ہے
ماں کا ہونا عملِ خیر کے ہونے کی دلیل
ریگِ ہستی میں دمکتے ہوئے سونے کی دلیل

سبز سے سفید میں آنے کا غم

سبز سے سفید میں آنے کا غم

نظر اٹھاؤں تو سنگ مر مر کی کور، بے حس سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیرِ قالین گھورتا ہے
مِرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے
گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں

چل اے دل آسمان پر چل

چل اے دل آسماں پر چل
چل اے دل آسماں پر چل
وہاں سے چل کے اس پُرشور بزمِ ہست کو دیکھیں
بلند و پست کو دیکھیں
زمیں کی سرنگونی آسماں سے کیسی لگتی ہے
پہاڑوں کی سرافرازی وہاں سے کیسی لگتی ہے

Saturday, 5 October 2019

میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گدھ

مادرِ وطن کا نوحہ

میرے بدن پر بیٹھے ہوئے گِدھ
میرے گوشت کی بوٹی بوٹی نوچ رہے ہیں
میری آنکھیں، میرے حسیں خوابوں کے نشیمن
میری زباں، موتی جیسے الفاظ کا درپن
میرے بازو، خوابوں کی تعبیر کے ضامن
میرا دل، جس میں ہر ناممکن بھی ممکن

خود فریبی کا اک بہانہ تھا

خلا

خود فریبی کا اک بہانہ تھا
آج اس کا فسوں بھی ٹوٹ گیا
آج کوئی نہیں ہے دور و قریب
آج ہر ایک ساتھ چھوٹ گیا
چند آنسو تھے بہہ گئے وہ بھی
دل میں اک آبلہ تھا پھوٹ گیا

نہ چھڑا سکو گے دامن

فلمی گیت

نہ چُھڑا  سکو گے دامن، نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں تو کہیں نہ جا سکو گے
نہ چُھڑا سکو گے دامن

وہ حسین سا تصور جسے تم نے زندگی دی
اسے بھول کر بھی شاید نہ کبھی بھلا سکو گے
نہ چھڑا سکو گے دامن

نوازش کرم شکریہ مہربانی

فلمی گیت

نوازش کرم شکریہ مہربانی
مجھے بخش دی آپ نے زندگانی
نوازش، کرم، شکریہ

جوانی کی جلتی ہوئی دوپہر میں
یہ زلفوں کے سائے گھنیرے گھنیرے
عجب دھوپ چھاؤں کا عالم ہے طاری

Thursday, 3 October 2019

یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی

یہ کون بزم سے اٹھا کہ بزم ہی نہ رہی
دلوں میں آگ، چراغوں میں روشنی نہ رہی
بنائی عاقبت اپنی تو پاک بازوں نے
یہ اور بات ہے، دنیا رہی، رہی، نہ رہی
نہ پوچھ رک گئیں کیوں گردشیں زمانے کی
بنے وہ دوست تو دنیا سے دشمنی نہ رہی

جاتی ہیں سبھی راہیں مے خانے کو کیا کہیے

جاتی ہیں سبھی راہیں میخانے کو، کیا کہیۓ
توبہ کے ہوئے ٹکڑے، پیمانے کو کیا کہیۓ
آنا ہے تو جانا ہے، جانا ہے تو آنا ہے
اس آنے کو کیا کہیۓ، اس جانے کو کہیۓ
سو بجلیاں رقصاں ہیں ہر تِنکے کے سینے میں
تعمیرِ خرابی ہے، کاشانے کو کیا کہیۓ 

رہ وفا میں ضرر سود مند ہے یارو

رہِ وفا میں ضرر سُود مند ہے یارو
ہے درد اپنی دوا، زہر قند ہے یارو
گھٹا بڑھا کے بھی دیکھا، مگر نہ بات بنی
غزل کا روپ "روایت پسند" ہے یارو
کُھلا جسے غلطی سے میں چھوڑ آیا تھا
مِرے لیے وہی دروازہ بند ہے یارو

حال دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے

حالِ دل ان سے کسی عنواں بیاں کر دیکھتے
اپنی رُوداد محبت، داستاں کر دیکھتے
دیکھ لیتے برقِ سوزاں میں ہے کتنا حوصلہ 
ہم بھی شاخ گُل پہ تعمیر آشیاں کر دیکھتے
ضبط اگر دیتا اجازت ہم کو اے پاسِ وفا
جوشِ غم میں جرأتِ آہ و فغاں کر دیکھتے

قصہ ایک بسنت کا

قصہ ایک بسنت کا

پتنگیں لُوٹنے والوں کو کیا معلوم کس کے ہاتھ کا مانجھا کھرا تھا اور کس کی
ڈور ہلکی تھی
انہیں اس سے غرض کیا پیچ پڑتے وقت کن ہاتھوں میں لرزہ آ گیا تھا
اور کس کی کھینچ اچھی تھی
ہوا کس کی طرف تھی، کون سی پالی کی بیری تھی؟

مکالمہ

مکالمہ

ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رَو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پَرتو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہو گا

عجب گھڑی تھی

عجب گھڑی تھی
کتاب کیچڑ میں گر پڑی تھی
چمکتے لفظوں کی میلی آنکھوں میں الجھے آنسو بلا رہے تھے
مگر مجھے ہوش ہی کہاں تھا
نظر میں ایک اور ہی جہاں تھا
نئے نئے منظروں کی خواہش میں اپنے منظر سے کٹ گیا ہوں

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم

وہ طائر جو کبھی اپنے پر و بال آزمانا چاہتے تھے
ہواؤں کے خد و خال آزمانا چاہتے تھے
آشیانوں کی طرف جاتے ہوۓ ڈرنے لگے ہیں
کون جانے کون سا صیاد کیسی وضع کے جال آزمانا چاہتا ہو
کون سی شاخوں پہ کیسے گل کھلانا چاہتا ہو

Tuesday, 1 October 2019

ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے

ایسے لاحق ہوا یہ شہر کا ویرانہ مجھے
روز اک خوف لپٹ جاتا ہے انجانا مجھے
روز اک درد مجھے راہ میں آ ملتا ہے
اور کہتا ہے سلام، آپ نے پہچانا مجھے
ٹھیک ہے خود بھی ہوں میں اپنے دکھوں کا باعث
سہنا پڑتا ہے جہاں تیرا بھی روزانہ مجھے

میں ہر رات سونے سے پہلے

باتیں

میں ہر رات سونے سے پہلے
بہت ساری باتیں
لپیٹ کے تکیے کے نیچے رکھ دیتا ہوں
اور خوابوں میں
انہیں دوسروں کے تکیوں کے نیچے
تلاش کرتا ہوں

فرحت عباس شاہ

رات کچھ دیر ٹھہر

رات! کچھ دیر ٹھہر
اور ذرا بڑھنے دے تاریکئ بے نیلِ مرام
اور چھپنے دے لگے زخم تمام
روح کے شہر میں کچھ ایسا اندھیرا کر دے
ایک اک نقش کا مٹ جائے وجود
خامشی چاٹ لے آوازوں کو

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں ہیں

تلخی

آنکھیں تلخیوں سے بھری ہوئی پیالیاں ہیں
دل کوئی دکھا ہوا زخم
آتی جاتی ہوئی سانس 
دل کو چھیل کر گزرتی ہے
پیالیاں اور زیادہ بھر جاتی ہیں

فرحت عباس شاہ

چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں

چلو محبت میں جیتنا جیتنا کھیلتے ہیں
اور نفرت میں ہارنا، ہارنا
حالانکہ مجھے پتہ ہے
تم محبت میں ہار جاؤ گے
اور میں نفرت میں 
لیکن پھر بھی ایک بار کھیل، کھیل لینے میں حرج ہی کیا ہے

فرحت عباس شاہ

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے

دکھی

اپنی اپنی مدت پوری کرنے والے
بہت ساری مدتیں پوری کرنا چاہتے ہیں
اور اپنی آدھی کھو بیٹھتے ہیں
اور دکھی ہو جاتے ہیں

فرحت عباس شاہ