ہمارا جذب اُنہیں کھینچ لائے گا گھر سے
یہ کب اُمید تھی پُھوٹے ہوئے مقدر سے
شہید کون ہُوا قتل گاہ میں خنجر سے
لہو جو روتی ہے تلوار چشم جوہر سے
بلائے جاں ہے بخیلوں کے واسطے دولت
ہلاک ہو گیا قارون کثرت زر سے
ہمارا جذب اُنہیں کھینچ لائے گا گھر سے
یہ کب اُمید تھی پُھوٹے ہوئے مقدر سے
شہید کون ہُوا قتل گاہ میں خنجر سے
لہو جو روتی ہے تلوار چشم جوہر سے
بلائے جاں ہے بخیلوں کے واسطے دولت
ہلاک ہو گیا قارون کثرت زر سے
تیرے ہر جور پہ یاں شکر خدا ہے اے دوست
کہ یہی مسلکِ اربابِ وفا ہے اے دوست
ہم کو اس عہدِ وفا سے تھیں امیدیں کتنی
تجھ کو جو عہد وفا بُھول چکا ہے اے دوست
تیری جانب سے نہ لائی کوئی پیغام کبھی
میری فریاد بھی صحرا کی صدا ہے اے دوست
یہ شام یہ بادل یہ ہوا یاد رہے گی
ساون تِری ایک ایک عطا یاد رہے گی
مستی بھرے جھونکے ہیں کہ چھلکے ہوئے ساغر
بل کھاتی ہوئی کالی گھٹا یاد رہے گی
بُھولوں گا نہ میں بھی تِری مستانہ ادا کو
تجھ کو بھی مِری لغزشِ پا یاد رہے گی
آپ کا عشق حقیقت سے زیادہ ہے کہیں
سو عقیدت یہ محبت سے زیادہ ہے کہیں
تُو مجھے جتنی سہولت سے ملا شکر تِرا
تُو مجھے میری ضرورت سے زیادہ ہے کہیں
یار حد درجہ تکلف کی ضرورت تو نہ تھی
یار یہ سب تو مروت سے زیادہ ہے کہیں
مسائل میں گِھرا ہے اک زمانہ، پھر کبھی جاناں
تمہارے وصل کا موسم سہانا، پھر کبھی جاناں
ابھی انسانیت کی سسکیاں، نوکِ قلم پر ہیں
لب و رُخسار و کاکُل کا فسانہ، پھر کبھی جاناں
مجھے افلاس، غُربت، بُھوک پر فی الحال لکھنا ہے
تِرے غم پہ بھی لکھوں گا کہا نا، پھر کبھی جاناں
بیٹھے ہیں اس طرح سے وہ آنسو نکال کر
رکھّا ہے جیسے گل کوئی خوشبو نکال کر
تصویر دیکھتی تھی وہ عہد شباب کی
صندوق میں رکھے ہوئے گھنگرو نکال کر
مل جائے گا تمہارے ہر اک مسئلے کا حل
سوچیں اگر نئے نئے پہلو نکال کر
ہم کریں کس پہ بھروسہ کہ یہاں سب جُھوٹے
یہ محبت یہ محبت کے نشاں سب جھوٹے
کوئی ایسا نہیں مُشکل میں جو کچھ کام آئے
کس کا ہم ذکر کریں جان جہاں سب جھوٹے
ہم نے دیکھا ہے وہ منظر کہ لرز جاتا ہے دل
کیسے کہہ دیں کہ نہیں اہل جہاں سب جھوٹے
حاکمِ وقت ہی قاتل ہے، خُدا خیر کرے
ہم سے مرعوب نہ باطل ہے خدا خیر کرے
اس لیے شیدا مِرا دل ہے خدا خیر کرے
اس کے رُخسار پہ اک تِل ہے خدا خیر کرے
وہ بس اک بار مجھے دل سے لگائے اپنے
آرزوئے دلِ بسمل ہے خدا خیر کرے
جنونِ عشق میں دیکھو کہیں ایسا نہ کر لینا
تم اپنے دامنِ احساس کو مَیلا نہ کر لینا
زلیخا آپ ہیں یہ سچ ہے لیکن میں نہیں یوسف
غلط فہمی میں اپنے آپ کو رُسوا نہ کر لینا
نمک پاش اپنی فطرت سے نہ ہرگز باز آئیں گے
تم اپنے زخمِ دل کو چھیڑ کر گہرا نہ کر لینا
کتنی کشش ہے آج بھی رشتوں کے تار میں
کٹتی ہے صبح شام میری انتظار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھنے کے باوجود
ہم نے فریب کھائے بہت تیرے پیار میں
ساقی تیری نگاہ سے پینے کے باوجود
باقی ہے اب بھی ہوش تیرے بادہ خوار میں
بکھر گیا ہے تو خود کو سنبھال، وقت نکال
شکست بُھول کے سوچیں اُجال، وقت نکال
نہیں ہے وقت حساب و کتاب کا باقی
سو خُود کو معافی تلافی میں ڈھال، وقت نکال
سفر پہ چلنا ہے تنہا، سو تنہا رہنا سیکھ
اب اپنا بوجھ کسی پر نہ ڈال، وقت نکال
نئی تقویم
نئی تقویم ہے یا نامہ اعمال کا نیا دفتر
کہ جس میں درج ہوں گے
روز میرے وہ محاسن
جو کہ دنیا کی نگاہوں میں محاسن ہیں
مگر سچ یہ کہ میرے توشۂ عقبیٰ میں ان کا نام نہ ہو گا
فکر ناکامئ تدبیر کروں یا نہ کروں
ہم نشیں شکوۂ تقدیر کروں یا نہ کروں
درد کی آخری منزل ہے مسرت آگیں
تلخیٔ دہر کی تفسیر کروں یا نہ کروں
ربط باہم ہی سے ہے ان کے زمانہ قائم
حسن کو عشق سے تعبیر کروں یا نہ کروں
محبتوں کے جہاں کارواں گزرتے ہیں
قیامتوں کے وہاں امتحاں گزرتے ہیں
یقیں کی منزلِ مقصود عشق کا مطلوب
ہوس کی راہ سے تو بس گماں گزرتے ہیں
اسی فراق کے لحظے میں رک گیا جیون
تمہارے ہجر کے لمحے کہاں گزرتے ہیں
تم کو جیون میں خسارا بھی تو ہو سکتا ہے
جو تمہارا ہے، ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے
صبح دم یہ جو سرِ شاخ مہکنے لگا پھول
تیرے ملنے کا اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
جو سمندر کے تلاطم سے نکل آیا ہے
اس کو تنکے کا سہارا بھی تو ہو سکتا ہے
یہ نہ سوچو کہ تھی آپس میں محبت کیسی
اب وہ دشمن ہے تو پھر اس سے مروت کیسی
سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جائے گی
آنے والی ہے خدا جانے مصیبت کیسی
جب چراغوں کی حفاظت نہیں ہوتی تم سے
پھر اندھیرا ہے گھروں میں تو شکایت کیسی
اب دل سے مسکرانا
ہے جُوئے شِیر لانا
میں مثلِ گیت لکھ دوں
تم خود کو گُنگُنانا
اُترے جو شام گھر میں
تم بن کے دِیپ آنا
میں سوچ رہا تھا
کہ گانٹھ کھول کر
ساری شکایتیں پھینک دوں
جب گانٹھ کُھل گئی
میرے چاروں طرف
ایک گُنجان شہر پھیل گیا
کون ہے سرپرست بھول گئے
لوگ عہد الست بھول گئے
تم نیا معرکہ سجاؤ گے
تم پُرانی شکست بھول گئے
ایک اچھا سا نام تھا اپنا
یار ہم بادہ مست بھول گئے
حرف کچھ معتبر سا لگتا ہے
ایک سایہ شجر سا لگتا ہے
تُو مِرا ہمسفر نہیں پھر بھی
جانے کیوں ہمسفر سا لگتا ہے
چاند تاروں پہ ہیں قدم لیکن
آدمی بے ہُنر سا لگتا ہے
ہم بلا شرط محبت کے ہیں قائل سائیں
ہے وجہ مجھ پہ کرم کو ہے وہ مائل سائیں
مجھ کو منظور نظر بننا تھا اس کا، لیکن
درمیاں اپنے انا بھی رہی حائل سائیں
میں نے رشتوں کی طنابوں کو بہت سخت رکھا
اس لیے ہوتا رہا رشتوں سے گھائل سائیں
مطربہ سے خطاب
بس بند کر اے مطربہ
یہ تیرا سازِ دلربا
یہ سحر زا نغمے ترے
اور جانفزا نغمے ترے
پر کیف ہیں اور دلنشیں
ان کی ضرورت ہی نہیں
متاع عشق ذرا اور صرف ناز تو ہو
تضیع عمر کا آخر کوئی جواز تو ہو
بہم دگر کوئی شب اس سے لب بہ لب تو چلے
ہوائے شوق کچھ آلودۂ مجاز تو ہو
قدم قدم کوئی سایہ سا متصل تو رہے
سراب کا یہ سر سلسلہ دراز تو ہو
شیرین ترے دو لب کے برابر شکر نہیں
مکھ کا ترے مساوی یہ شمس و قمر نہیں
مشاط جو کیا تری زُلفوں کو تار تار
ہم رنگ بُوئے مُو ترا من تک تر نہیں
پردہ اُٹھایا بادِ سحر تیرے مُکھ سے آج
خُوشبو اسی سحر میں پری رو سحر نہیں
عمر گزری ہے تری گلیوں کے چکر کاٹ کر
کیوں نہ لکھوں خود کو مجنوں میں سخنور کاٹ کر
جانے یہ کیسی شرارت آج سوجھی ہے اسے
وہ مجھے اڑنے کو کہتی ہے مرے پر کاٹ کر
جب بھی میں ہمت جٹا کر کرتا ہوں اظہار عشق
بولنے لگتی ہے پگلی بات اکثر کاٹ کر
اس عشق میں گواہ نہ کوئی دلیل ہے
منصف بھی دل ہے اور یہ دل ہی وکیل ہے
وہ آج پھر مکر گیا وعدے سے وصل کے
میری گزارشوں پہ وہی قال و قیل ہے
ظالم ہو بادشاہ تو رب نے بتا دیا
فرعون وقت کے لیے دریائے نیل ہے
ہو گا کسی کے حُسن کا سودا یہیں کہیں
یوسف خرید لے گی زلیخا یہیں کہیں
شاید ادھر ادھر پڑی ہوں اب بھی کرچیاں
ٹوٹا تھا آنکھوں کا کوئی سپنا یہیں کہیں
اہل جنوں کے نقش کف پا یہاں پہ ہیں
ہونا تو چاہیے کوئی صحرا یہیں کہیں
بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی
لے چلے یا سوئے ویرانہ کوئی
کیا ملا فرزانوں میں رہ کر مجھے
ان سے تو بہتر ہے دیوانہ کوئی
رہ گزار شوق کا ہے یہ کرم
ہو گیا اپنا ہی بے گانہ کوئی
تابش حسن حجاب رخ پر نور نہیں
رخنہ گر ہو نگہ شوق تو کچھ دور نہیں
شب فرقت نظر آتے نہیں آثار سحر
اتنی ظلمت ہے رخ شمع پہ بھی نور نہیں
راز سربستۂ فطرت نہ کھلا ہے نہ کھلے
میں ہوں اس سعی میں مصروف جو مشکور نہیں
ایک کافر ادا نے لوٹ لیا
ان کی شرم و حیا نے لوٹ لیا
اک بت بے وفا نے لوٹ لیا
مجھ کو تیرے خدا نے لوٹ لیا
آشنائی بتوں سے کر بیٹھے
آشنائے جفا نے لوٹ لیا
وہ روبرو ہوں تو یہ کیف اضطراب نہ ہو
خدا کرے نگہ شوق کامیاب نہ ہو
سوال کیا ہو کہ ان کی خموش نظروں میں
نہ دے سکے جو وہ اب تک وہی جواب نہ ہو
یہ کیا گماں ہے کہ وقت سحر کی بیداری
جو رات بیت چکی ہے اسی کا خواب نہ ہو
زندگی موت کی تماشائی ہے
آج پھر اس کو ملنے آئی ہے
سر سراتی ہوئی یہ تنہائی
در و دیوار پہ لہرائی ہے
ڈر مِرے دِل میں چُھپ کے رہتا ہے
جیسے برسوں کی شناسائی ہے
دل کھنڈر میں کھڑے ہوئے ہیں ہم
باز گشت اپنی سُن رہے ہیں ہم
مدتیں ہو گیئں حساب کئے
کیا پتہ کتنے رہ گئے ہیں ہم
وحشتیں لگ گئیں ٹھکانے سب
دشت کو راس آ گئے ہیں ہم
شام غم کی سحر نہ ہو جائے
ہر خوشی مختصر نہ ہو جائے
آہ دل پر اثر نہ ہو جائے
ان کی بھی آنکھ تر نہ ہو جائے
راز الفت سنبھال کر رکھیے
ہر کوئی با خبر نہ ہو جائے
سب تمنائیں ہوں پوری کوئی خواہش بھی رہے
چاہتا وہ ہے محبت میں نمائش بھی رہے
آسماں چُومے مِرے پنکھ تِری رحمت سے
اور کسی پیڑ کی ڈالی پہ رہائش بھی رہے
اس نے سونپا نہیں مجھ کو مِرے حصے کا وجود
اس کی کوشش ہے کہ مجھ سے مِری رنجش بھی رہے
ان کو دیکھا تو طبیعت میں روانی آئی
دل کے اُجڑے ہوئے گلشن پہ جوانی آئی
پیاس کیا اس کی بُجھائیں گے کوئی عارض و لب
لبِ دریا نہ جسے پیاس بُجھانی آئی
گرمیٔ رنج و الم ہی میں بسر کی ہم نے
زندگی میں تو کوئی رُت نہ سُہانی آئی
مجھ سے مت پوچھ مِرے درد کی شدت اے دوست
دل مِرا دیتا نہیں اس کی اجازت اے دوست
کیوں صفائی پہ صفائی دئیے جاتا ہے مجھے
میں نے تو کی ہی نہیں کوئی شکایت اے دوست
میرے ہر راز سے واقف ہوئی ساری دنیا
رنگ لے آئی ہے آخر تِری محنت اے دوست
لکھ کے ملکہ نے جو چھپوایا یہ دلچسپ کلام
لبِ حاسد پہ بھی ہے سوزِ ترنم لا ریب
فکر تاریخ کی جب ہونے لگی گوہر
رنگ لائے گی بہت موج تبسم لا ریب
نہ ملے گا کہیں تاریخ کا کوسوں جو پتا
ہوں گے اس راہ میں سب ہوش و خرد گم لا ریب
جس جگہ بھی ملا گھنا سایا
ہم نے کچھ دیر کو سکوں پایا
ہم نوید سحر میں غلطاں تھے
ظلمت شب نے آ کے چونکایا
ہم مقدر ہیں دھوپ کا یارو
ہم پہ ہنستا ہے کس لیے سایا
اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے
کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے
تجربوں میں نہ زہر ضائع کر
سیکھ آداب پہلے ڈسنے کے
اس سے کہیو جو خود میں ڈوبا ہے
تجھ پہ بادل نہیں برسنے کے
ذروں کی باتوں میں آنے والا تھا
میں صحرا سے ربط بڑھانے والا تھا
بارش امیدوں پر پانی پھیر گئی
میں رشتوں کو دھوپ لگانے والا تھا
پھر یاد آیا دور بہت ہی دور ہو تم
میں پاگل آواز لگانے والا تھا
دُعا نے کام کیا ہے، یقیں نہیں آتا
وہ میرے پاس کھڑا ہے، یقیں نہیں آتا
میں جس مقام پر آ کر رُکا ہوں شام ڈھلے
وہیں پہ وہ بھی رُکا ہے، یقیں نہیں آتا
وہ جس کی ایک جھلک کو ترس گئی تھی حیات
وہ آج جلوہ نما ہے، یقیں نہیں آتا
اس کے ہونٹوں پر سُر مہکا کرتے ہیں
ہم اب خُوشبو سے تر سویا کرتے ہیں
روشن رہتے ہیں غم سطح پہ اشکوں کی
یہ پتھر پانی پر تیرا کرتے ہیں
دن بھر میں ان کی نگرانی کرتا ہوں
شب بھر میرے سپنے جاگا کرتے ہیں
مہاجر
میں اپنی نانو کی سہمی سہمی
اُجڑتی آنکھوں کو دیکھتی ہوں
تو سوچتی ہوں
کہاں گیا ہے
چلہار کا ٹھنڈا میٹھا پانی
پُھدکتی چڑیاں شجر کی شاخوں پہ جھولتی تھیں
تکمیل
تِری ملاقات نے
مجھے شاعر بنا دیا
پھر تجھ سے دوری
اور تِری قُربت کے حسیں لمحوں نے
مجھے مصوری سِکھا دی
یوں مِری غمِ حیات کی تکمیل ہوئی
ہم تاسف سے ہاتھ ملتے رہے
آستینوں میں سانپ پلتے رہے
ہم بھی مثلِ چراغِ تنہائی
اس کی محفل میں رات جلتے رہے
غیر آ آ کے دے گئے مٹی
وہ پرے دُور ہی ٹہلتے رہے
ایسے تو ذہنیت نہ خرابے میں ڈالیے
سڑکوں پہ تارکول کی شیشے اُچھالیے
نہ بن سکی تو صرف چٹانوں سے آج تک
ویسے تو ہم نے کانچ کے رشتے نبھا لیے
پانی سے اس کا زنگ نکلنا محال ہے
انسانیت کی شکل پہ تیزاب ڈالیے
سکوں سے کون بھلا پیار کر کے رہتا ہے
لگے یہ چوٹ تو پتھر سے خون بہتا ہے
سُنے بغور چُبھن کو سماعت احساس
وہ بات گُل نہیں کہتا جو خار کہتا
مجھے بھی کچے گھڑے پر بٹھا دیا جائے
مِری رگوں میں بھی دریائے عشق بہتا ہے
سر خوشی میرے لیے اسباب غم میرے لیے
موجزن ہے جیسے دریائے کرم میرے لیے
ہر ستم میرے لیے ہے، ہر کرم میرے لیے
حُسن کے جلوے ہیں سارے بیش و کم میرے لیے
کیا حقیقت ہے غمِ ہستی کی میرے سامنے
آئے دن ہی گردنِ مِینا ہے خم میرے لیے
کوئی پردہ میانِ عشق حائل ہو نہیں سکتا
یہ حد ہے تو بھی اب مدِ مقابل ہو نہیں سکتا
تِرا عہدِ محبت ٹُوٹ کر عہدِ محبت ہے
مگر دل ٹوٹ جاتا ہے تو پھر دل ہو نہیں سکتا
محبت میں پرستش کا مقام اونچا سہی، لیکن
یہ غم انسان کی فطرت میں شامل ہو نہیں سکتا
ادھر یہ زباں کچھ بتاتی نہیں ہے
ادھر آنکھ کچھ بھی چُھپاتی نہیں ہے
پتہ ہے رہائی کی دُشواریاں پر
یہ قیدِ قفس بھی تو بھاتی نہیں ہے
کمی رہ گئی ہو گی کچھ تو کشش میں
سدا لوٹ کر یوں ہی آتی نہیں ہے
میر کا سوز بیاں ہو تو غزل ہوتی ہے
داغ کا لطف زباں ہو تو غزل ہوتی ہے
دل تو روئے مگر آنکھوں میں تبسم جھلکے
یہ اگر رنگ فغاں ہو تو غزل ہوتی ہے
دوست کی یاد میں جذبات پہ آتا ہے نکھار
ہجر کی رات جواں ہو تو غزل ہوتی ہے
بچھڑ کے ہم سے نہ لی اُس نے پھر خبر کوئی
ہمارے حال سے غافِل تھا اس قدر کوئی
یہ ایک دل ہی نہیں، جان بھی فِدا کر دیں
نگاہِ ناز سے دیکھے ہمیں اگر کوئی
ہمیں بھی منزلِ مقصُود کا نشان مِلے
رہِ طلب میں ہو اپنا جو راہبر کوئی
آج کے دن کی نظم
زندگی سے مِلی تھی کہیں
ساعتیں تھم گئی تھیں وہیں
وہ مہک چُھو کے گُزری مجھے
رُوح تک مُسکرانے لگی
کس قدر جان لیوا سفر
اور حسیں ہے رفاقت تِری
رد عمل
میں نے جب بھی سچ کو جنا
جُھوٹ کے سوداگر فرشتوں نے
آ کر میرے ماتھے پر
شیطان لِکھ دیا
غنی پہوال
دھوئیں کی اوٹ سے باہر بھی آ گیا ہوتا
ہمارے ساتھ اگر رشتۂ ہوا ہوتا
اسے بھی شعلگیٔ ربط کی شکایت تھی
سلگتی آنکھ کی درزوں میں اور کیا ہوتا
جہاں نہ پیڑ اگے تھے نہ آگ ہی برسی
وہاں ہمارے لیے کون سا خدا ہوتا
نا مہرباں اگرچہ کسی کی نظر نہ تھی
یہ اور بات ہے کہ مِرے حال پر نہ تھی
وہ شام بے چراغ مقدر ہوئی مجھے
جو آشنائے جلوۂ روئے سحر نہ تھی
بھٹکے ہوئے تھے جادۂ راہِ وفا سے ہم
جب تک کسی کی یاد شریکِ سفر نہ تھی
دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے
سنگ رواں کے دل میں بھی اک زخم آب ہے
ہر فرد آج ٹوٹتے لمحوں کے شور میں
عصر رواں کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے
وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا
جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے
محبتوں کے حسیں پلوں کو وہ تتلیوں کا خیال دے گا
کہ خواب سارے بس ایک شب میں وہ میری آنکھوں میں ڈھال دے گا
میں روٹھ جاؤں گی لاکھ اس سے مجھے منا ہی وہ لے گا آخر
قریب آ کر یا مسکرا کر مزاج میرا سنبھال دے گا
جو پل بھی بیتے گا قربتوں میں حسین چنچل سی چاہتوں میں
مجھے یقیں ہے کہ میرا دلبر وہ میرے ماضی کو حال دے گا
پھر وہ ساون کی گھٹا چھائی ہے
پھر مِری جان پہ بن آئی ہے
پھر کسی شخص کی یاد آئی ہے
پھر کوئی چوٹ اُبھر آئی ہے
مصلحت اور کہیں لائی ہے
دل کسی اور کا شیدائی ہے
مُشکلوں میں مُسکرانا سیکھیے
پُھول بنجر میں اُگانا سیکھیے
جو چلے پرچم اُٹھا کر دوستو
ساتھ اس کا ہی نبھانا سیکھیے
کھڑکیوں سے جھانکنا بے کار ہے
بارشوں میں بھیگ جانا سیکھیے
دنیا سے تو جھوٹ بتایا جا سکتا ہے
لیکن دل کیسے سمجھایا جا سکتا ہے
تنہا لوگو! دیواریں تو سُن لیتی ہیں
دیواروں کو حال سُنایا جا سکتا ہے
عُمر لُٹائی جا سکتی ہے اک لمحے پر
اک لمحہ تا عُمر چلایا جا سکتا ہے
تنہائی میں دکھتے لمحے جب کچھ یاد دلاتے ہیں
سائے سائے کتنے چہرے آنکھوں میں پھر جاتے ہیں
اب تو اچھے دل والوں کا قحط سا پڑتا جاتا ہے
لیکن نقلی چہرے والے دل اپنا بھرماتے ہیں
چھو جاتی ہے جب بھی آ کر یادوں کی پروائی سی
ننھے ننھے کتنے دیپک پلکوں میں جل جاتے ہیں
سوزشِ غم کا بیاں لب پہ نہ لاؤں کیونکر
درد ہے حد سے سوا دل میں چُھپاؤں کیونکر
تُو یہیں دوست مِرے غم کا مداوا کر دے
چوٹ جو دل پہ لگی ہے وہ دِکھاؤں کیونکر
کیسے دُہراؤں غمِ زیست کے افسانے کو
سُننے والا نہ کوئی ہو تو سُناؤں کیونکر
نہیں فراز کا یہ قول بُھلانے والا
"دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا "
عجیب مرض ہے جو قُربتوں کا دُشمن ہے
"وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا"
ہے روزِ عید گلے مِل رہا ہوں پیاروں سے
"ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا"
بدن نڈھال ہیں، پلکوں کو نم کیا گیا ہے
کسی کے جانے کا شِدت سے غم کیا گیا ہے
ہدف پہ آ کے بھی گھائل نہیں ہُوا تو سمجھ
شکار پر کسی آیت کا دم کیا گیا ہے
ہم اہلِ درد کے سینوں میں منتقل ہوئے ہیں
ہمارا ذکر کتابوں میں کم کیا گیا ہے
جتنے پتھر ہیں سبھی مجھ میں لگاتے جاؤ
مجھے دیوار کی مانند اُٹھاتے جاؤ
میرے چہرے کو پڑھو ایک کہانی کی طرح
اور جذبات کی تصویر بناتے جاؤ
یا مقدر میں مِرے اپنا اضافہ کر دو
یا مِرے ہاتھوں کی تحریر مٹاتے جاؤ
اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دُکھ ہوتا ہے
ہنس کے کرتے ہیں اشارات تو دکھ ہوتا ہے
جن سے منسوب مِرے دل کی ہر اک دھڑکن ہو
وہ نہ سمجھیں مِرے جذبات تو دکھ ہوتا ہے
مجھ کو محروم کیا تم نے گِلہ کوئی نہیں
ہوں جو غیروں پہ عنایات تو دکھ ہوتا ہے
میری خوش فہمی
مکمل تھی زندگی
تھے راستے خوش نما
نہ تھی منزل کی پرواہ
چُن لی اپنی مرضی کی ڈگر
اور میں ہی میرا ہمسفر
خود کی صحبت سے بہتر
تمہیں جینے میں آسانی بہت ہے
تمہارے خون میں پانی بہت ہے
کبوتر عشق کا اُترے تو کیسے
تمہاری چھت پہ نگرانی بہت ہے
ارادہ کر لیا گر خُودکشی کا
تو خُود کی آنکھ کا پانی بہت ہے
وہ باتیں
موت کی چھاؤں میں بھی وہ رقص وفا
لاکھ پہروں میں وہ ملاقاتیں
بارش سنگ میں زباں پہ غزل
اُڑتے شعلوں میں رس بھری باتیں
برچھیوں کی انی پہ چلتے جاؤ
عشق کے معجزے کراماتیں
میرے خلاف آکاش میں کوئی سازِش کرتا رہتا ہے
میری قسمت والا تارا گردِش کرتا رہتا ہے
دودھ کی خالی بوتل سے بھی بچّے کا ہے عشق عجیب
تھک جاتے ہیں ہونٹ, مگر وہ کاوِش کرتا رہتا ہے
باغ انگور کے چھوڑ آیا تھا سرحد پار جوانی میں
پاگل بوڑھا پَل پَل کِشمِش کِشمِش کرتا رہتا ہے
جو خشک جھیل کی مٹی سے آب مانگتے ہیں
وہ اندھ کار سے رنگوں کے خواب مانگتے ہیں
لہو پلاتے ہیں جو لوگ ہم کو جیون بھر
وہ شام ہوتے ہی کیوں کر شراب مانگتے ہیں
انہیں خبر ہی نہیں ہے خود اپنے ہونے کی
جو ہر سوال سے پہلے جواب مانگتے ہیں
جو ترے روئے درخشاں پہ نظر رکھتے ہیں
وہ خیالوں میں کہاں شمس و قمر رکھتے ہیں
راستہ یہ تِری چاہت کا نکالا ہم نے
بس تِرے چاہنے والوں پہ نظر رکھتے ہیں
وہ بہت دور ہیں اس بات کا غم ہے لیکن
یہ بہت ہے وہ مِری خیر خبر رکھتے ہیں
ہماری پلکوں سے چند قطرے جو اشک بن کر ڈھلک پڑیں گے
یہ اجڑے گلشن میں پھول سارے ہمیں یقیں ہے مہک پڑیں گے
یہ چاند مکھرا، نشیلی آنکھیں، مثال ریشم گھنیری زلفیں
بچارے رندوں کی خیر یارب جو دیکھیں زاہد بہک پڑیں گے
خزاں رتوں میں بہار بن کر اے جان جاناں جو تم ملو گے
ہماری آنکھوں میں بجھتے تارے مثال جگنو چمک پڑیں گے
نہ پھل نہ پُھول نہ سایا شجر میں باقی ہے
مگر وہ سُوکھا ہوا پیڑ گھر میں باقی ہے
گِرے مکان کو صدیاں گُزر گئیں، لیکن
پر اب بھی خوف سا دیوار و در میں باقی ہے
ابھی ہے دیر یہاں انقلاب آنے میں
بڑا سکوت ابھی شور و شر میں باقی ہے
دُکھ کی اس لُو کو وہ پُروا کبھی ہونے دیتا
مجھ میں بکھرے کو اکٹھا کبھی ہونے دیتا
تیری خوشیوں میں خوشی اپنی ملا دی میں نے
دور خود سے تجھے ورنہ کبھی ہونے دیتا
یہ جو قسطوں میں اذیت ہے یہ کم ہو جاتی
رنج اک بار ہی سارا کبھی ہونے دیتا
مشعل سا کوئی پُھول کِھلا خاک پر نہیں
یہ اس لیے کہ روشنی اب چاک پر نہیں
مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں صبر ہی کروں
میٹھا جو کوئی پھل ہو، ابھی تاک پر نہیں
جلنے لگا ہوں جسم کے اندر سے میں کہیں
ہجراں کی آگ اب مِری پوشاک پر نہیں
تھی آرزو عروج پر اور رو بہ رو تھی رات
کوئی مِرے قریب تھا، تھی آرزو کی رات
انجانے میں اسیر ہوئی تھی نظر، مگر
تسکین دل کو دے گئی وہ مختصر سی رات
جھپکی پلک، گُزر گئی چاہے طویل تھی
دل کو پناہ دے گئی آوارگی کی رات💓
ہوئے ہم بے سر و سامان لیکن
سفر کو کر لیا آسان، لیکن
کنارے زد میں آنا چاہتے ہیں
اُترنے کو ہے اب طُوفان لیکن
بہت جی چاہتا ہے کُھل کے رو لیں
لہک اُٹھے نہ غم کا دھان لیکن
پھر نئی محفل سجا لی جائے گی
پھر نظر ہم سے چُرا لی جائے گی
پُوچھنا ہے اُن کی نظروں سے مجھے
دل کی حسرت کب نکالی جائے گی
بعد مرنے کے اگر آیا پیام
بات اُن کی کیسے ٹالی جائے گی
عشق کی اک رنگین صدا پر برسے رنگ
رنگ ہو مجنوں اور لیلیٰ پر برسے رنگ
کب تک چُنری پر ہی ظُلم ہوں رنگوں کے
رنگریزہ! تیری بھی قبا پر برسے رنگ
خواب بھریں تِری آنکھیں میری آنکھوں میں
ایک گھٹا سے ایک گھٹا پر برسے رنگ
حسین پُھولوں کے موسم سُہانے آئے ہیں
’’کلی کلی کو تبسّم سِکھانے آئے ہیں ‘‘
رکھے ہیں خار گُلوں کی قبا بچانے کو
یہ مُعتبر ہیں گُلوں کو بچانے آئے ہیں
بھری بہار میں پُھولوں کے چہرے اُترے ہیں
چمن میں جیسے فراثی پُرانے آئے ہیں
وہی فُرقت کے اندھیرے وہی انگنائی ہو
تیری یادوں کو ہو میلہ، شبِ تنہائی ہو
میں اُسے جانتی ہوں، صرف اُسے جانتی ہوں
کیا ضروری ہے زمانے سے شناسائی ہو
اتنی شِدت سے کوئی یاد بھی آیا نہ کرے
ہوش میں آؤں تو دُنیا ہی تماشائی ہو
دلوں کو توڑنے والو خدا کا خوف کرو
گرے ہوؤں کو اٹھا لو خدا کا خوف کرو
چمک کر اور بڑھاؤ نہ میری سیہ بختی
بڑے گھروں کے اجالو خدا کا خوف کرو
نہ جاؤ کار محبت میں چھوڑ کر تنہا
ذرا سا ہاتھ بٹا لو خدا کا خوف کرو
خود سے اس نے نجات پا لی ہے
راہ نونیت نے نکالی ہے
خشک آنکھوں کے آس پاس کہیں
دل نے اک جھیل سی بنا لی ہے
لہلہاتے ہیں درد کے پودے
عشق کا باغ، یاد مالی ہے
ترا ہر نشاں اب مٹانا پڑے گا
صنم تیرے خط کو جلانا پڑے گا
مبارک ہو تجھ کو صنم تیری خوشیاں
غموں سے مجھے دل لگانا پڑے گا
بچانی ہے عزت اگر اپنے گھر کی
تو چھپ چھپ کے آنسو بہانا پڑے گا
میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر
یہ زہر پی رہا ہوں گوارا کیے بغیر
بکتا نہ کاش عشق کی قیمت لیے بغیر
میں ان کا ہو گیا انہیں اپنا کیے بغیر
واقف تو ہوں وفا کے نتیجے سے ہم نشیں
بنتی نہیں ہے ان پہ بھروسا کیے بغیر
پھیلی ہے مثلِ خوشبو مِری فکرِ شاعرانہ
ہے غزل مِرا تعارف، مِرا شعر ساحرانہ
کہاں بزمِ اہلِ دانش، کہاں دل مِرا دِوانہ
وہاں گُفتگو مدلل، یہاں ہر سخن فسانہ
وہ دلنشیں سا لہجہ، وہ گُفتگو کی خُوشبو
نظروں میں آ گیا ہے، اب دل کو کیا بچانا
آپ کی جب سے مہربانی ہے
دل کے ہر زخم پر جوانی ہے
آپ سے دور رہ کے زندہ ہیں
یہ بھی کیا کوئی زندگانی ہے
بعد مدت کے اس کو دیکھا ہے
جو محبت کا میری بانی ہے
میں تو صدا لگا چکا اُس کے دیار میں
اب دیکھنا ہے کتنا اثر ہے پُکار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھّا، بہ احتیاط
اُلجھا کبھی نہ گردشِ لیل و نہار میں
جتنا کہ صبح و شام کی رنگت میں ہے تضاد
اُتنا ہے فرق آپ کے قول و قرار میں
جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے
میرے لیے اندھیرے بھی تنویر بن گئے
تھا ناز اپنے حسن پہ ہم کو بہت مگر
دیکھا انہیں تو حیرتِ تصویر بن گئے
ان کے نگاہِ شوخ کے انداز پر نثار
برچھی کبھی بنے تو کبھی تیر بن گئے
رہبر جو زندگی کا مذاقِ خلیل ہے
ہر ذرہ کائنات کا اک سنگِ میل ہے
پیدا کیا گیا ہوں مٹایا بھی جاؤں گا
میرا وجود مِرے عدم کی دلیل ہے
وقتِ فنا بھی کم نہیں ہوتا تِرا سرور
اے زندگی! تُو کتنی حسین و جمیل ہے
پال رکھتے ہیں کئی روگ پرانے والے
ہجر کو ڈوبتے سورج سے ملانے والے
حال کس حال میں لکھتے ہیں تجھے علم کہاں
بِن پڑھے خط کے تراشے کو جلانے والے
ہم نے امیدِ ملاقات پہ کاٹا جیون
مڑ کے آئے ہی نہیں ہاتھ چھڑانے والے
کھویا تجھے تو کوئی بھی دھڑکا نہیں رہا
حد ہے کہ اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا
اک درد ہے کہ دل میں کوئی دِیپ ضوفشاں
اک یاد ہے کہ میں کبھی تنہا نہیں رہا
تُو جا چکا ہے اور یہ کرتے ہیں ہم حساب
کیا کیا رہا ہے، اور اب کیا کیا نہیں رہا
دل کے زخموں کو زمانے سے چھپانے کے لیے
ہنسنا پڑتا ہے یہاں سب کو دکھانے کے لیے
کب سے بیٹھے ہیں مری آنکھ کی انگنائی میں
خواب بچوں کی طرح شور مچانے کے لیے
اپنے دیدار کا شربت تو پلا دے ہم کو
ہم تو آئے ہیں ترے شہر سے جانے کے لیے
اب بچھڑنے کو بھی ہم طور نیا دیتے ہیں
جانے والوں کو ہم آنکھوں سے صدا دیتے ہیں
جِس سے رب راضی ہوا، اُس کو دئیے ہیں پنجتنؑ
اور پنجتنؑ جو ہوں راضی تو خدا دیتے ہیں
یار سارے ہی بڑے دل کے ملے ہیں مجھ کو
جب بھی دیتے ہیں مجھے زخم بڑا دیتے ہیں
مرے دل ذرا ٹھہر جا تجھے کیسی بے کلی ہے
بھلا اس سے مل کے پہلے ترا درد کم ہوا ہے
کبھی دید کی وہ برکھا کبھی لطف کا وہ ساون
کبھی چاہتوں کی شبنم تیرا غم بُھلا سکی ہے
جو دھک رہے ہیں شعلے کیا انہیں بُجھا سکی ہے
مرے دل ذرا ٹھہر جا تجھے کیسی بے کلی ہے
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
قِصہ دِل کا ہے
ساری دنیا میں جھگڑا
آب و گِل کا ہے
فاطمہ زہرا جبیں
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
ڈولی میں کیا اُٹھتی
ارتھی میں ہو گئی وِداع
مُفلس کی بیٹی
اظہار وارثی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
شہر سے دور ایک پگڈنڈی
اِک اکیلا درخت پیپل کا
جانے والوں کا راستہ دیکھے
بشیر سیفی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
جُدائی آخری بوسہ نہیں تھی
ابھی تو آنکھ بھر دیکھا نہیں تھا
مگر اتنے میں گاڑی جا چکی تھی
زعیم رشید
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/*تروینی/ترائلے
کہ جب قُربت کے لمحے جھوٹ ہو جائیں
محبت آسمانی پھر نہیں رہتی
کہا بھی تھا مِلو پر فاصلوں کے ساتھ
شوزب حکیم
چپکے چپکے تنہائی میں کس کے لیے اب روتی ہوں
گِیلی مٹی کے دامن میں فصل گُلوں کی بوتی ہوں
کیسا دھڑکا دل کو لگا ہے، اب کیا ہونے والا ہے
مٹی کے خالی دِیپک میں بُجھتی ہوئی ایک جَوتی ہے
کب سے بُھول چکی ہوں خُود کو،اب تو مِرا یہ عالم ہے
جب وہ جگائے اُٹھ جاتی ہوں، جب وہ چاہے سوتی ہوں
قیامت ہے مگر بُھولی ہوئی ہے
بچھڑنے کی وبا پھوٹی ہوئی ہے
تِری آنکھوں کے حلقے کہہ رہے ہیں
کہ تجھ سے زندگی رُوٹھی ہوئی ہے
مِری وحشت مِرے جانے سے پہلے
کسی کی آنکھ میں ٹھہری ہوئی ہے
تم عمل کیے جاؤ تم کو کس نے روکا ہے
ہم تو خواب دیکھیں گے یہ ہمارا حصّہ ہے
آشیاں کو جلتے تو ہر نظر نے دیکھا ہے
کتنے جل چُکے ارماں کیا کسی نے سونچا ہے
حسرتیں زمانے کی پال کر کرو گے کیا
وہ ہی فصل کاٹو گے بیج جس کا بویا ہے
اللہ کی رحمت سے وہ سرشار ہوا ہے
سن کر جو اذاں صبح کی بستر سے اٹھا ہے
میں کیسے یہ کہہ دوں کے وہ انسان برا ہے
وہ جب بھی ملا مجھ کو محبت سے ملا ہے
آئے جو پریشانی تو حالات پہ کر غور
بے وجہ نہیں تجھ پہ مسلط یہ بلا ہے
یہ ملک عداوت سے کیوں پاک نہیں ہوتا
جُھوٹوں کی قیادت سے کیوں پاک نہیں ہوتا
اربابِ سیاست کے ہیں پاک ارادے تو
دل اُن کا غلاظت سے کیوں پاک نہیں ہوتا
آنسُو بھی نکلتے ہیں آنکھوں سے نِدامت کے
دل میرا نِدامت سے کیوں پاک نہیں ہوتا
شرط
دعائیں ہار جاتی ہیں
دعائیں پر شکستہ ہوں
تو اکثر ہار جاتی ہیں
دعا مقبول ہونے کے لیے بے حد ضروری ہے
دعا کو وہم اور تشکیک کی قینچی سے
لوگوں کا اک ہجوم ہے ایسا نہیں ہے دوست
بس ایک تو ہی شہر میں تنہا نہیں ہے دوست
جس پر ہو عکس تھوڑا بہت میرے درد کا
ایسا کوئی نگاہ میں چہرہ نہیں ہے دوست
جس طرح آپ آئے سنا کر چلے گئے
اتنا بھی مختصر مرا قصہ نہیں ہے دوست
اسے چھوا ہی نہیں جو مری کتاب میں تھا
وہی پڑھایا گیا مجھ کو جو نصاب میں تھا
وہی تو دن تھے اجالوں کے پھول چننے کے
انہیں دنوں میں اندھیروں کے انتخاب میں تھا
بس اتنا یاد ہے کوئی بگولا اٹھا تھا
پھر اس کے بعد میں صحرائے اضطراب میں تھا
محفل میں گفتگو ہوئی جب اعتبار کی
نظریں جھکی ہوئی تھیں ہر اک جاں نثار کی
یہ بات یاد رکھیے گا اس خاکسار کی
پوشاک صاف ہوتی ہے ہر عیب دار کی
رخ سے ذرا سی دیر ہٹا لیجیے نقاب
قسمت سنوار دیجیے لیل و نہار کی
تہمت کسی کی کیوں مِرے دامن سے جُڑی ہے
اک گفتگو ہے جو مِری الجھن سے جڑی ہے
اک تیرگی ہے رات کے دامن میں کہیں گُم
اک روشنی ہے جو کسی روزن سے جڑی ہے
جس کو بڑے ہی شوق سے ہر اک نے سُنا ہے
وہ گُفتگو بھی آپ کے آنگن سے جڑی ہے
گھر کسی کا نہ اجاڑو یہ بسا رہنے دو
اور آنگن میں فرشتوں کی صدا رہنے دو
بھول جائیں نہ پرندے کہیں گھر کا رستہ
پیٹر کاٹو نہ کوئی،۔ پیٹر لگا رہنے دو
سر اُٹھائے گا تو پہنچے گا جنوں کی حد تک
راکھ کے ڈھیر میں شعلے کو دبا رہنے دو
دل کا سکون ڈھونڈنے جائے بشر کہاں
ایسا نگر ہے کون سا ایسا ہے در کہاں
تم نے تو کہہ دیا کہ چلے جاؤ بزم سے
یہ تو بتا دو ہم کو کہ جائیں کدھر کہاں
اس کی گلی کو چھوڑ کے آ تو گئے مگر
اب سوچتے ہیں گزریں گے شام و سحر کہاں
یہاں سے جو نکل کر بھاگنا چاہے اجازت ہے
قیامت کی ضرورت کیا یہ پل خود ہی قیامت ہے
دعا جس نے نہیں کرنی اسے بھی معاف کرنا ہے
اگر ایسا ہی ہونا یے مجھے تو پھر اجازت ہے
ترے بندے تیری باتیں سناتے ہیں ڈراتے ہیں
اگر تو بھی یہی سب ہے مجھے تو پھر اجازت ہے
لوگ بے ہوش ہیں اس قوم کے بیدار کہاں
ہم کہاں رہ گئے جا پہنچے ہیں اغیار کہاں
اب وہ کنعان کہاں، مصر کا بازار کہاں
اب زلیخا سا ملے کوئی خریدار کہاں
میری اوقات کہاں ہے کہ تُو مِل جائے مجھے
میں کہاں اور تری ذات کا ایثار کہاں
شعور فطرت انساں کا ہے بیدار ہو جانا
کہیں مجبور بن جانا کہیں مختار ہو جانا
دکھا کر اک جھلک اس کا پس دیوار ہو جانا
یہی تو عاشقوں کے حق میں ہے تلوار ہو جانا
مرے سوئے ہوئے جذبات کا بیدار ہو جانا
کسی بے ہوش کا ہے خود بخود ہشیار ہو جانا
آرزو تھی تو اضطراب بھی تھا
نیند گہری تھی اور خواب بھی تھا
اک بگُولا تھا ریت کا پیچھے
دشت میں سامنے سراب بھی تھا
میری قسمت کے سرد ہاتھوں میں
میرے حصے کا کچھ عذاب بھی تھا
کوئی زاری سنی نہیں جاتی، کوئی جرم معاف نہیں ہوتا
اس دھرتی پر اس چھت کے تلے کوئی تیرے خلاف نہیں ہوتا
کبھی دمکیں سونے کے ذرے کبھی جھلکے مُرغابی کا لہو
کئی پیاسے کب سے کھڑے ہیں، مگر پانی شفاف نہیں ہوتا
کوئی زُلف اُڑے تو بکھر جانا کوئی لب دہکیں تو ٹھٹھر جانا
کیا تزکیہ کرتے ہو دل کا،۔ یہ آئینہ صاف نہیں ہوتا
بہت دن ہو گئے ہیں دوستو! ہم کو وطن دیکھے
گھڑے سر پہ اُٹھائے ناچتے گاتے بدن دیکھے
قمیضیں بوسکی کی، اور وہ شلوار لٹھے کی
وہ تِلے دار جُوتی پہ کسی مُفلس کا فن دیکھے
وہ بانگ صُبح مُرغے کی وہ تیتر کی ثناء خوانی
بتاؤ کون سی آنکھوں نے یہ صاحب سخن دیکھے
میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے
سر پہ تلوار اسی نے میرے لٹکائی ہے
جائیں تو جائیں کدھر جان پہ بن آئی ہے
دائیں جانب ہے کنواں بائیں طرف کھائی ہے
پیش کیوں کرتے ہو شیشے کے مشابہ خود کو
ہم نے یہ زندگی ہیرے کی طرح پائی ہے
سفر جاری رہے گا
جہالت چاہتے ہو
قدامت پُوجتے ہو
ہلاکت بانٹتے ہو
خدا کے نام پر تم
نہتے شہریوں میں قضا تقسیم کرتے ہو
کہیں یہ سوچ پاؤ
دوستی مُشکل میں تھی اور دُشمنی مُمکن نہ تھی
زندگی تجھ سے مِری اب دل لگی ممکن نہ تھی
جان لیتے گر، دیارِ عشق میں رکھتے قدم؟
جس گُزرگاہ پر کبھی آسُودگی ممکن نہ تھی
اک فقط سادہ دلی نے حشر تک پہنچا دیا
بے حِسوں سے بھی ہماری بے رُخی ممکن نہ تھی
یہ جو صداقتوں کی تکذیب ہو رہی ہے
تعمیر تو نہیں ہے تخریب ہو رہی ہے
برفاب نے بدن کو ایسے جلا دیا ہے
تبدیل میرے دل کی تہذیب ہو رہی ہے
جس کو مِرا جنازہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں
اے دوست! الوداعی تقریب ہو رہی ہے
طوفان ہے، آندھی ہے، تلاطُم ہے، بلا ہے
وہ کرب جو احساس کے پردے میں چُھپا ہے
بُجھنا تو مقدّر ہے چراغوں کا ازل سے
جلنے کا شرف صرف جہنّم کو مِلا ہے
دونوں کی پسند ہے مِرے افکار پہ روشن
دولت میں ہے شیطان، قناعت میں خُدا ہے
ہم بے وفا ہیں اتنی وفاؤں کے باوجود
وہ با وفا ہیں ساری خطاؤں کے باوجود
جن کی جڑیں زمین میں گہری ہیں وہ درخت
گرتے نہیں ہیں تیز ہواؤں کے باوجود
بکھری ہے زُلف چاند سے چہرے کے آس پاس
روشن ہے رات کالی گھٹاؤں کے باوجود
ماں تُو کہاں ہے؟
دیکھ گھر سُونا پڑا ہے
چارپائی پر کوئی نہیں ہے
تیری لاٹھی پر کانپتے ہوئے ہاتھ کا لمس بھی باقی نہیں ہے
اور میں اب راہداری میں رُکا یہ سوچتا رہتا ہوں
کہ کس کی دِھیمی چال کو راستہ دوں
کس کی آغوشِ سکوں میں پناہ ڈھونڈوں؟
باعثِ حسرت و آزار نہیں ہو سکتے
ہم تری راہ کی دیوار نہیں ہو سکتے
زندگی خواب ہے، بے بس ہیں تماشائی سب
لاکھ چاہیں بھی تو بیدار نہیں ہو سکتے
ہم اسیرانِ غمِ ہست ہیں پابندِ وفا
سو تمنا میں گرفتار نہیں ہو سکتے
دو چار دن ہی فقط ہاں ہنسی خوشی کے رہے
سو ان کے بعد بھلا ہم بھی کب کسی کے رہے
وہ ایک شخص، کسی کا کبھی جو ہو نہ سکا
کمال یہ ہُوا، ہم عمر بھی اُسی کے رہے
گُماں کہ درمیاں رہتے ہوئے یقین کِیا
تو ہم خُدا کے رہے پھر نہ ہم خودی کے رہے
اپنے روز و شب کا عالم کربلا سے کم نہیں
عرصۂ ماتم ہے لیکن فرصت ماتم نہیں
صرف جذب شوق میں پوریں لہو کرتے رہے
ہم وہاں الجھے جہاں پر کوئی پیچ و خم نہیں
کوئی روگ ایسا نہیں جو قریۂ جاں میں نہ ہو
کوئی سوگ ایسا نہیں جس میں کہ شامل ہم نہیں
ادھوری نسل کا پورا سچ
عمر کا سورج سوا نیزے پہ آیا
گرم شریانوں میں بہتے خون کا دریا بھنور ہونے لگا
حلقۂ موج ہوا کافی نہیں
وحشت ابر بدن کے واسطے
آغوش کوئی اور ہو
یہ بہار کیا یہ خزاں ہے کیا مِرے دل کے دشت و چمن میں آ
کبھی پُھول پُھول پھبن میں آ،۔ کبھی خار خار چُبھن میں آ
تِرے ہات میں مِرا ہات ہو، تِری بات میں مِری بات ہو
نہ کبھی حیات میں مات ہو، مِری عاشقی کے چلن میں آ
تِرا پُھول پُھول ہے پیرہن، تِرا رنگ رنگ ہے بانکپن
تجھے دیکھنے میں رہوں مگن مِرے دیکھنے کی لگن میں آ
درِ حبیب سے اپنی نظر ہٹا نہ سکے
لبوں پہ دم تھا مگر آنکھ ہم چُرا نہ سکے
وہ کیا چڑھائیں گے پُھول آ کے میری تُربت پر
جو جیتے جی کبھی بالیں پہ میری آ نہ سکے
کریں گے قیدِ قفس سے وہ کیا رہا ہم کو
قفس کی تیلیوں سے جو چمن دکھا نہ سکے
اب تمنا ہے تُو قریب رہے
جان و دل میں مِرے حبیب رہے
دونوں عالم رہیں رہیں نہ رہیں
تیری قُربت مگر نصیب رہے
تم مِرے پاس ہو تو کیا غم ہے
گو زمانہ مِرا رقیب رہے
جذبوں کو کبھی نذر سیاست نہیں کرتے
ہم لوگ دکھاوے کی محبّت نہیں کرتے
رکھتے ہیں یقین اپنا سدا عزم و عمل پر
ہم کاغذی کردار کی زحمت نہیں کرتے
افسوس جواں ہو کے مرے دور کے بچے
ماں باپ کے خوابوں کی حفاظت نہیں کرتے
مانا کے مخالف یہ زمانے کی ہوا ہے
لیکن مرے ہمراہ میری ماں کی دعا ہے
میں بھول گیا اپنے ہر اک رنج و الم کو
جب سے ترے حالات کے بارے میں سنا ہے
نادم ہو گناہوں پہ تو اپنے ارے ناداں
ہے وقت ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے
یہ اپنے اصولوں سے بغاوت نہیں کرتے
بنجارے کسی سے کبھی نفرت نہیں کرتے
اپنوں سے بھی اظہار ضرورت نہیں کرتے
یہ کام کبھی صاحب غیرت نہیں کرتے
یہ اہل ہوس کرتے ہیں بیوہ پہ نوازش
مقتول کے بچوں سے محبت نہیں کرتے
(بے یار و مددگار فلسطینیوں کے نام)
خاموش ہیں سب آہ و بُکا تک نہیں آتی
غزّہ کے اسیروں کی صدا تک نہیں آتی
ملبے سے نکلتی ہوئی بچی نے پُکارا
قبروں میں پڑے، پھر بھی قضا تک نہیں آتی
اک بھائی نے بھائی سے کہا آخری جملہ
یوسف کے برادر کو، حیا تک نہیں آتی
حیرت ہے کسی ہاتھ میں پتھر بھی نہیں ہے
اور شہر میں محفوظ کوئی سر بھی نہیں ہے
اُس شخص کو کچھ لوگ بڑھانے میں لگے ہیں
جو شخص مِرے قد کے برابر بھی نہیں ہے
جس شہر کی عظمت ہے مِرے نام سے منسوب
اس شہر میں میرے لیے اک گھر بھی نہیں ہے
نیند کا عالم پوچھ رہے ہو کیوں بے گھر بنجاروں سے
کام یہ بستر کا لیتے ہیں پھٹے ہوئے اخباروں سے
آج کا انساں ہاتھ کی ریکھا میں تقدیر کو پڑھ پڑھ کر
جانے کیا کیا پوچھ رہا ہے سورج، چاند، ستاروں سے
بیماری کو جاننے والے اجمل اور لقمان کہاں؟
آج ارسطو کوئی نہیں جو پیار کرے بیماروں سے
فتنوں کو دبا دیتے ہیں شہرت نہیں کرتے
ہم سنتے ہیں سب، رائی کو پربت نہیں کرتے
کیا لوگ تھے کل رات کیا کرتے تھے سجدے
ہم لوگ تو دن میں بھی عبادت نہیں کرتے
پردہ کیے لوگوں پہ تو مٹ جاتے ہیں ہم لوگ
ماں باپ جو زندہ ہیں تو خدمت نہیں کرتے
محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
اب جہاں میں اس طرح سے سوچتا کوئی نہیں
اے مسیحا صرف تجھ کو دیکھنے آتا ہوں میں
ورنہ مجھ کو ہے خبر میری دوا کوئی نہیں
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
آہِ سوزاں میں
خوشیوں کے دن ہیں رکھے
غم کے ساماں میں
فاطمہ زہرا جبیں
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
خواب میں پیدا ہوئے
خواب میں زندہ رہے
خواب میں ہی مر گئے
نصیر احمد ناصر
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے*
موجوں کا عذاب اب تک
سوہنی تِرے لیکھوں پر
روتا ہے چناب اب تک
نثار ترابی
ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
دور کونج کی ڈار
اوجھل ہوتے ہوتے بھی
کہہ گئی جیون راز
محسن بھوپالی
ٹپہ ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/*ہائیکو/تروینی/ترائلے
بے چین نہیں ہوتے
سائے کی محبت میں
دن رین نہیں ہوتے
شوزب حکیم
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خدا نے جہاں میں اتارے محمدﷺ
نبی آخری ہیں ہمارے محمدﷺ
دکھایا ہے رب نے تو اپنا ہی جلوہ
ہیں دونوں جہاں کے سہارے محمدﷺ
ہے خوش بخت وہ ایک جھولی کہ جس میں
مِرے پیارے رب نے اتارے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
راوی لکھتا ہے کہ یہ واقعہ کرب و بلا
سال شصت و یکم ہجرتِ احمدﷺ میں ہوا
گزرا اس بات کو جب پانچ برس کا عرصا
شامی و کوفیوں سے خوب سا مختار لڑا
اس بہادر نے ہزاروں ہی دلاور مارے
سارے چن چن کے غرض دشمنِ سرور مارے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اک موَدت کا جام ہو جائے
نعت کا اہتمام ہو جائے
بات تفسیرِ والضحٰی کی ہو
ذکرِ خیرُالانامﷺہو جائے
چشمِ روشن ہو دل کی نگری پر
تیرگی سب تمام ہو جائے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مدینے کو جا کر جو ہم دیکھتے ہیں
برستا خدا کا کرم دیکھتے ہیں
یہ ہے فیض اُن کی نگاہِ کرم کا
صحابہؓ کو ہم محترم دیکھتے ہیں
مدینے کو دیکھا جو حسنِ نظر سے
لگا جیسے جنّت کو ہم دیکھتے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل ٹھکانہ میرے حضورﷺ کا ہے
یہ جلوہ خانہ میرے حضور کا ہے
ایک پل میں ہزاروں عالم میں
آنا جانا میرے حضور کا ہے
نعمتیں سب وہی کھلاتے ہیں
دانہ دانہ میرے حضور کا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کاش میں گنبدِ خضرا کا پرندہ ہوتا
آتا جاتا میں اسی سائے میں زندہ ہوتا
میں بھی انوار کی بارش میں نہاتا اکثر
رب کی رحمت کا میں اس طرح چنندہ ہوتا
یا میں روضے کی صفائی پہ لگایا جاتا
عمر بھر ہی اسی منصب کا دہندہ ہوتا
آہ وہ ایام عشرت، ہائے وہ لیل و نہار
واپس آ سکتے نہیں اس زندگی میں زینہار
نالے آتش ریز آہیں خُون میں ڈُوبی ہوئی
آنکھ غم آگیں نگاہیں خُون میں ڈُوبی ہوئی
سوزشِ پنہاں سے پڑتے ہیں زباں میں آبلے
ہونٹ تھر تھر کانپتے ہیں گُفتگو کرتے ہوئے
اک کہانی سفر میں چھوڑ آئے
زندگانی سفر میں چھوڑ آئے
کُچھ سنبھالا گیا نہ اُلفت میں
ہر نشانی سفر میں چھوڑ آئے
دیکھتے کیا ہو میرے چہرے کو
ہم جوانی سفر میں چھوڑ آئے
سہنے کو تو سہہ جائیں غمِ کون و مکاں تک
اے خالقِ ہر درد، مگر پھر بھی کہاں تک
پہنچے نہ کہیں دیدۂ خوننابہ فشاں تک
وہ حرفِ شکایت نہیں آیا جو زباں تک
یہ میری نگاہوں کے بنائے ہوئے منظر
کمبخت وہیں تک ہیں نظر جائے جہاں تک
گُلشن کو شعلہ زار بناتے ہو کس لیے
اپنے ہی گھر کو آگ لگاتے ہو کس لیے
کتنے ہی گُل جمال یہاں خُوش خرام ہیں
کانٹے روش روش پہ بِچھاتے ہو کس لیے
اسلام ہے ازل سے علمدارِ دوستی
آپس میں دوستوں کو لڑاتے ہو کس لیے
نئے لیڈر کی دعا زعفرانی کلام
بھگوان مِرے دل کو وہ زندہ تمنّا دے
جو حِرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے
وادئ سیاست کے اس ذرے کو چمکا دے
اس خادمِ ادنیٰ کو اک کرسیٔ اعلیٰ دے
اوروں کا جو حِصہ ہے مجھ کو وہی داتا دے
محرومِ بتاشا ہوں تُو پُوری نہ حلوا دے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
من و تو کا فرق مٹ جائے جو چاہت ہو تو ایسی ہو
جو سوچوں وہ تُو سُن پائے سماعت ہو تو ایسی ہو
حقیقت کا تو دعویٰ ہے مگر حُکمِ شریعت پر
جو اپنی کھال کھنچوائے ارادت ہو تو ایسی ہو
خُدا و انبیاء اور سب ملائک اس کے شاہد ہیں
جو سر سجدے میں کٹوائے شہادت ہو تو ایسی ہو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
محمدؐ جس کے نانا ہیں حسینؑ ابن علیؑ ہیں وہ
شہیدوں میں شہنشاہ ہیں حسینؑ ابن علیؑ ہیں وہ
وہاں پر کربلا میں بھی بنائی صف نمازوں کی
حُکم پُورا کِیا جس نے حسینؑ ابن علیؑ ہیں وہ
شہیدوں کی شہادت پر میری بہنا نہیں رونا
کہا جس نے یہ زینبؑ سے حسینؑ ابن علیؑ ہیں وہ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمین، چاند، ستارے، یہ دن یہ رات بنی
حضورؐ آپ کے صدقے میں کاٸنات بنی
تلاشِ حق میں ہم آقاﷺ گلی گلی بھٹکے
جو در پہ آپﷺ کے آئے تو اپنی بات بنی
قلم نے اِسمِ محمدﷺ سے با وضو ہو کر
لکھی ورق پہ جو شانِ اُممﷺ تو نعت بنی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
جمالِ گُنبدِ خضرا عجیب ہوتا ہے
کسی کسی کو یہ منظر نصیب ہوتا ہے
اس ایک لمحے کا احوال ہو سکے نہ بیاں
گُنہ گار جب ان کے قریب ہوتا ہے
یہ پوچھ اہلِ نظر سے کہ جالیوں کے قریب
دل و نظر سے طواف حبیبﷺ ہوتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم سے آشفتہ سرا کو دل سے یہ اقرار ہے
عکس جنت کا نبئ پاکﷺ کا دربار ہے
اس کی آنکھیں قیمتی ہر شے سے بڑھ کر ہیں جناب
جس کی آنکھوں کو بھی حاصل آپؐ کا دیدار ہے
چودہ سو سالوں سے جس پہ ناز ہے اس دہر کو
وہ خدا کا نیک بندہ سید ابرارﷺ ہے
تلاش
تم کو پھولوں کی خوشبو میں تلاش کیا ہے
تم کو دنیا کی روشنی میں تلاش کیا ہے
دور دور تک تیرا اتا ہے نہ پتا ہے
جی چاہتا ہے بارش کی بوندوں میں تلاش کروں
لیکن بارش کی بوندوں میں تو پانی ہے
پھولوں کی خوشبو میں تو خوشبو ہے
مت بھولنا
تمہاری آنکھوں کی بصیرتوں میں
میں زندہ رہوں گا
جس طرح میری آنکھوں میں
میرا باپ سانس لیتا ہے
غنی پہوال
آخری تاوان ہے یا موت کا سامان ہے
فیصلہ ہونے کو ہے کہ خودکشی آسان ہے
نرم و خستہ ہو چلے تھے تر نوالہ ہو گیے
بن گیے پتھر کے ہم اب سنگ بھی حیران ہے
کانچ کچومر ہوا یہ جرم میرے سر ہوا
وہ وار سہے دل نے کہ اب خود یہ پریشان یے
وہ جو شکوے کر رہے تھے تلخئ حالات کے
آ گئے زد میں سبھی بے موسمی برسات کے
پہلے پہلے میں کسی بھی بات پر روتا نہ تھا
پھر مِری آنکھوں میں خیمے لگ گئے سادات کے
کھولی جب اس خوبرو نے بزم میں اپنی زباں
پھول کھلنے لگ گئے ہر سمت موضوعات کے
صحراؤں میں بھی کوئی ہمراز گُلوں کا ہے
گُلشن میں کوئی رہ کر خُوشبو کو ترستا ہے
اک دن تو کُھلے گا یہ دروازۂ دل تیرا
اب دیکھنا ہے کب تک احساس بھٹکتا ہے
نیندوں کے مکاں میں ہے جس دن سے تِرا چہرہ
کُھلتی ہیں یہ آنکھیں تو اک خوف سا لگتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تم جاتے ہو مدینہ تو اک پیام کہنا
درِ مصطفیٰؐ پہ میرا جا کے سلام کہنا
میں ہوں سوالی مجھ کو در پر بلائیں اپنے
جو ہو سکے تو مجھ کو ان کا غُلام کہنا
پیاسی ہیں میری نظریں دل بن گیا ہے صحرا
دو گھونٹ پینے کو دو زم زم کا جام کہنا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آنکھوں میں بس گیا ہے مدینہ حضور کا
بے کس کا آسرا ہے مدینہ حضور کا
پھر جا رہے ہیں اہل محبت کے قافلے
پھر یاد آ رہا ہے مدینہ حضور کا
تسکین جاں ہے راحت دل وجہ انبساط
ہر درد کی دوا ہے مدینہ حضور کا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مجھے لگتا نہیں ہے کوئی ڈر طیبہ کہ گلیوں میں
حیات اپنی مکمل ہو بسر طیبہ کیہ گلیوں میں
قبول اب تو دل ناداں کی ہو جائے دُعا یا رب
اسے جینا ہے جا کر عمر بھر طیبہ کی گلیوں میں
سلام ان کو مِرا کہنا عقیدت سے محبت سے
تِرا جس وقت ہو زائر گُزر طیبہ کی گلیوں میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کس طرح چاند نگر تک پہنچوں
آپﷺ بُلوائیں تو در تک پہنچوں
چُومتے چُومتے قدموں کے نقوش
عرش کی راہ گُزر تک پہنچوں
شب غم سے کسی صُورت نکلوں
اور دامانِ سحر تک پہنچوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دل ہی دل میں سب سُنا کر رو پڑے
اُن کے در پر سر جُھکا کر کر رو پڑے
تابِ ضبطِ غم نہ باقی رہ سکی
آپؐ کے قدموں میں آ کر رو پڑے
حد سے بڑھ کر اضطرابِ قلب تھا
اپنی حالت کو چُھپا کر رو پڑے
آئیے اے جانِ عالم آئیے
اپنے بندے پر کرم فرمائیے
عید آئی اور گیا ماہِ صیّام
چاند سا منہ آپ تو دِکھلائیے
سال بھر گُزرا اُمیدِ وصل میں
عید کا دن ہے گلے لگ جائیے
پڑھ پڑھ کر جناب لِکھ رہا ہوں
مانگے کی کِتاب لکھ رہا ہوں
رُقعوں کا ڈھیر لگ گیا ہے
ایک خط کا جواب لکھ رہا ہوں
کاغذ کی نمی کا سبب مت پُوچھ
اشکوں کا حساب لکھ رہا ہوں
ہر گھڑی کرب مُسلسل میں کٹی جاتی ہے
زندگی اپنے گُناہوں کی سزا پاتی ہے
یاد آؤں کہ نہ آؤں مِری قسمت، لیکن
ان سے اُمید مُلاقات چلی جاتی ہے
یوں مِرے بعد ہے دُنیا پہ اُداسی طاری
جیسے دُنیا مِرے حالات کا غم کھاتی ہے
زمیں کو عُجلت، ہوا کو فُرصت، خلا کو لُکنت مِلی ہوئی ہے
ہم احتجاجاً زمیں پہ زندہ ہیں یا اجازت ملی ہوئی ہے؟
ہم اپنی مرضی کے تارے چُن کر فلک پہ چہرے بنا رہے ہیں
بغیر چھت کے پڑے ہوئے ہیں تو یہ سہولت مِلی ہوئی ہے
بچھڑنے والوں کی بد دُعائیں ہماری عُمریں بڑھا رہی ہیں
یہ زہر خالص نہیں ہے اس میں کسی کی چاہت ملی ہوئی ہے
وہ کون ہے جو؟
ستم رسیدہ، غموں کے ماروں کی آہ و زاری
کہاں ہے کوئی؟ جو درد مندوں کی نوحہ خوانی
گھروں میں محصور بے بسوں کی ندا سنے گا
صدائے خلقِ خدا سنے گا
نہ دال روٹی، نہ پانی بجلی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اُٹھیں جو ہاتھ تو سارے سلام تیرے ہوں
مِری نظر کے سبھی احترام تیرے ہوں
رہِ حیات میں جتنے سفر بھی میرے ہیں
جہاں رُکوں میرے آقاﷺ مقام تیرے ہوں
قدم قدم پہ ستارے ہوں تیریﷺ رحمت کے
جہاں بھی گُزریں مِرے صبح و شام تیرے ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
مُعطّر مُعطّر فضائے محمدﷺ
ہے پُھولوں کہ خُوشبو ادائے محمدﷺ
وہ مکہ کی وادی وہ ایمان لانا
مؤثر تھی کتنی صدائے محمدﷺ
سُنا ہے کہ ہوتے ہیں سُلطاں سے اعلیٰ
بنا دے مجھے بھی گدائے محمدﷺ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عرب نہ بیٹھنے دیتے کوئی غریب، قریب
انہیں بٹھاتے تھے رب کے مگر حبیب، قریب
ہوائے شہر مدینہ ہمیں بتاتی ہے
ہیں خُلد اور مدینہ بہت قریب قریب
شروع میں تو نبیؐ کی مخالفت بھی کی
کرم جو دیکھا تو ہوتے گئے رقیب، قریب
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
حرف اُترے جو ثنا خوانی کے عُنوان ہوئے
عاقبت اپنی سنورنے کے بھی سامان ہوئے
تھا نہیں حرف سجانے کا سلیقہ مجھ کو
اک گُنہ گار پہ اللہ کے احسان ہوئے
میری اس نوکِ قلم پر ہیں ستارے رقصاں
لوگ جو محوِ تماشا تھا وہ حیران ہوئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تِرا نام ہے محمدﷺ تِری بزم آسماں ہے
مِرا گھر زمیں کے اوپر تِری راہ کہکشاں ہے
تُو ہے اوّل اور آخر، تُو شفیعِ روزِ محشر
ہے میرا وجود فانی تُو حیات جاں وِداں ہے
مجھے کملی میں چُھپا لے کہ اے کالی کملی والے
تُو سراپا نُورِ وحدت میری زندگی دُھواں ہے
جو دل کی بارگاہ میں تجلّیاں دِکھا گیا
مِرے حواس و ہوش پر سرُور بن کے چھا گیا
تِرے بغیر زندگی گُزارنا مُحال تھا
مگر یہ قلب ناتواں یہ بوجھ بھی اُٹھا گیا
جو شخص میری ذات میں بسا ہوا تھا مُدتوں
نہ جانے مجھ سے رُوٹھ کر وہ اب کہاں چلا گیا
ہم تیری دنیا میں اپنے رنگ بھرتے رہ گئے
اور تختی پر ہمارے نام لِکھے رہ گئے
بس اُسے چُھونے لگے تھے اور اچانک رُک گئے
ہم لبِ دریا تک آئے، اور پیاسے رہ گئے
اے میرے ہنس مُکھ تیری یادوں کے قصّے چھیڑ کر
جو تیری باتوں پہ ہنستے تھے وہ روتے رہ گئے
دوستوں سے تو کنارا بھی نہیں کر سکتا
ان کا ہر ظُلم گوارا بھی نہیں کر سکتا
میرا دُشمن مِرے اپنوں میں چُھپا بیٹھا ہے
اس کی جانب میں اشارا بھی نہیں کر سکتا
شب میں نکلے گا نہیں اس پہ مسلط ہے نظام
دن میں سُورج کا نظارا بھی نہیں کر سکتا
آج بدلا ہوا اندازِ خُود آرائی ہے
حُسنِ رنگیں کا ہر اک شخص تمنّائی ہے
دیکھ لیتا ہے جو تجھ کو وہ سنبھلتا ہی نہیں
اک قیامت، ارے ظالم تیری انگڑائی ہے
کل جو کرتے تھے بہت مجھ سے وفا کی باتیں
آج غیروں سے بہت ان کی شناسائی ہے
وہ اب کہاں ہے
یہ سردیوں کے شروع میں اکثر
ہوا میں خُنکی یہ بوندا باندی
تمہاری یادوں کو لا کے آنکھیں
بھگو کے کہتی ہیں؛ تم یہیں ہو
میں ایک دم سے یقین کر کے
کبھی ہوا سے کبھی برستی وہ ہلکی بارش سے پوچھتا ہوں
وداعِ پنہاں ہمشیرہ رابعہ پنہاں کی مرگ پر لکھا گیا کلام
الوداع اے جانِ روحِ والدِ تُربت نشیں
الوداع اے نُورِ عینِ مادرِ غم آفریں
الوداع اے حُسنِ اُلفت، دُخترِ شیریں مقال
الوداع اے جملۂ افسانۂ طُور و جمال
الوداع اے نکہتِ گُلہائے گُلزارِ وطن
الوداع اے اے بُلبلِ رنگیں بیاں شیریں دہن
رنجش کے ہر اک روگ اور الزام سے پرے
لے جاؤں تجھ کو دوست میں ابہام سے پرے
خوابوں کو میرے نیند یہ مٹنے نہیں دیتی
ہو جاؤں کسی طور میں آرام سے پرے
چھینے گئے ادراک سے منزل کے راستے
راستہ بنا کے دے کوئی اب گام سے پرے
تمہاری یاد میں جیتے تمہارا دم بھرتے
یہ کیا کہ عمر گنوا دی ہے نوکری کرتے
نہ جا رقیب کی محفل میں رات کو تنہا
یہ دیکھ پاؤں پہ ہم تیرے ہاتھ ہیں رکھتے
کچھ اس لیے بھی اسے دُکھ میں مِری یاد آئی
چراغ شام سے پہلے جلا نہیں کرتے
کالے موسموں کی آخری رات
تب ہزاروں اندھیروں سے
اک روشنی کی کرن پھوٹ کر
سرد ویران کمرے کے تاریک دیوار و در سے الجھنے لگی
اور کمرے میں پھرتے ہوئے
سیکڑوں زرد ذرے
صداؤں کے آغوش پر
ہم یہ کس شہرِ محبت کی ہوا کھا آئے
دل یہ پھر چاہے کوئی زخم نیا کھا آئے
کوئی ہمراہ نہ تھا، کوئی ہم آواز نہ تھا
ہم تو خُود اپنے ہی سائے سے دغا کھا آئے
جتنے اسباب کیے، سارے غلط ہی بیٹھے
عشق چُھوٹا تو کوئی اور خطا کھا آئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سوز ہو دل میں تو آہوں کا اثر کچھ اور ہے
حوصلہ کر اے دلِ حیراں، سفر کچھ اور ہے
سبز گُنبد کے مکیں یا مُصطفٰی صلے علٰیﷺ
تیرے بام و در شہاﷺ تیرا نگر کچھ اور ہے
ہے افق پر دور سے طیبٰہ کا منظر مُنعکس
آپﷺ کی ہر یاد کا دل پر اثر کچھ اور ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صاف لکھا ہے سرِ لوحِ جبیں آپﷺ کا ہوں
میرے آقاؐ میں کسی کا بھی نہیں آپؐ کا ہوں
کُرۂ عشق سے باہر بھی حٖضورؐ آپؐ کا تھا
کرۂ عشق میں جب سے ہوں مکیں آپؐ کا ہوں
مجھ کو بہکائے گا کیا جلوۂ دُنیا کا فریب
میرا ایمان کی حد تک ہے یقیں آپؐ کا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میں سناؤں نعتِ احمدﷺ یہ زبان بیاں نہیں ہے
کوئی چیز میرے جذبوں کی بھی ترجماں نہیں ہے
ارے بے خبر طبیبو! تمہیں یہ خبر نہیں ہے
غمِ یار کے علاوہ کوئی غم نہاں نہیں ہے
میرے درد کی دوائیں نہ کہیں کہیں تلاشو
مجھے لے چلو مدینہ، یہ دوا یہاں نہیں ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
عشقِ سرکارؐ ہستی کا عرفاں ٹھہرا
شُکر صد شُکر اُسی ذات پہ ایقاں ٹھہرا
اس لیے زیست کی دُشواری ہوئی ہے آساں
آسرا میرا حضورﷺ آپ کا داماں ٹھہرا
چاند بن کر وہ چمکتا ہے مِری راتوں میں
یادِ آقاﷺ میں جو آنسو سرِ مژگاں ٹھہرا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کاش سرکارؐ کے حُجرے کا میں ذرہ ہوتا
اُنؐ کے نعلین کا جاں پر میری قبضہ ہوتا
حشر تک سر نہ اُٹھاتا میں درِ اقدسؐ سے
میری قسمت میں ازل سے یہی لکھا ہوتا
اُنؐ کے جلوؤں میں مگن رات بسر ہو جاتی
اُنؐ کو تکتے ہوئے ہر ایک سویرا ہوتا
اِستفسار
مِرے اندر ٹٹولو گے
پلندہ دل کا کھولو گے
تو ان آنکھوں کے رستے سے
خموشی چیخ اُٹھے گی
فقط اک بات پُوچھے گی
بچھڑ کے تم سے جو فصلِ بہار گُزری ہے
ہمارے دل کو بڑی ناگوار گزری ہے
یہ زندگی جو گُزاری ہے ہم نے تیرے بغیر
یقین جان، بہت بے قرار گزری ہے
تمہاری یادوں کے موتی سمیٹے بیٹھا تھا
تمام رات مِری اشک بار گزری ہے
ہے یہ دُشمن جان کی، یہ جان کر
روز مے پیتا ہے مےکش چھان کر
زخم پر رکھ دے مِرے تازہ گُلاب
ہے مسیحِ عشق کا فرمان، کر
ساتھ میں لے کر بہاریں آئے گا
گھر سے نکلا ہے جو دل میں ٹھان کر
اشکوں نے لفظ ہجر کیا لکھا بیاض پر
غزلوں نے اس کو جُھوم کے گھیرا بیاض پر
چہرے پہ تیرے تِل نہیں، دل شاعروں کا ہے
جیسے خیام کو کوئی مصرعہ بیاض پر
یک لخت کتنے پُھول اذیت کے کِھل اُٹھے
دل تیرے ہجر میں بڑا تڑپا بیاض پر
میرا کوئی دُشمن ہی جب نہیں زمانے میں
آگ لگ گئی کیسے میرے آشیانے میں
انگلیاں اُٹھاتے ہیں لوگ کس لیے مجھ پر
ذِکر جب نہیں میرا آپ کے فسانے میں
یہ اگر حقیقت ہے میں تمہارا مُجرم تھا
قید کر لیا ہوتا دل کے قید خانے میں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
درودِ مُصطفیٰؐ لکھتی، اگر جو نعت لکھ پاتی
سلامِ کبریاﷻ لکھتی، اگر جو نعت لکھ پاتی
تِرے حُبدار کا مجھ سے اگر جو پُوچھتا کوئی
فقط میں مُرتضیٰؑ لکھتی، اگر جو نعت لکھ پاتی
کبھی مولودِ کعبہ کا زچہ خانہ نظر آئے
بس اتنی اِلتجا لکھتی، اگر جو نعت لکھ پاتی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
سحر بھی اپنے لہُو سے جگا رہے ہیں حسینؑ
خُدا کی راہ میں سر بھی کٹا رہے ہیں حسینؑ
بکھرتی فِسق کی تصویر ریگِ صحرا پر
زمانہ دیکھ رہا ہے، دِکھا رہے ہیں حسینؑ
فضائے کرب و بلا سے یہ آ رہی ہے صدا
وفا نِبھاتے ہیں کیسے، بتا رہے ہیں حسینؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تو پنجتن کے سائے میں اس گھر تلک تو آ
او بد نصیب! اپنے مقدر تلک تو آ
لے کر علیؑ کا عکس حسنؑ اور حسینؑ سے
عباسؑ سے گُزر علیؑ اکبر تلک تو آ
تیرے شماریاتِ سوالات مرحبا
بارہ شمار کرنے بہتّر تلک تو آ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
نہ پُوچھ ہجرِ نبیﷺ میں ہیں لذتیں کیسی
سرُور بخش ہیں اس غم کی راحتیں کیسی
مدینے جاتی ہے دن رات میرے دل کی لگن
لگن کو فاصلے کیسے، مسافتیں کیسی؟
حضورﷺ آپ کے در کی گدائی کے آگے
جہاں کی خُسروی کیسی، حکومتیں کیسی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
لپٹ کر روضۂ اطہر سے اے بادِ صبا کہنا
تڑپتا ہے جدائی میں ریاضِ بے نوا کہنا
مِرے اشکوں کو لے جانا چُھپا کر اپنے آنچل میں
بچشمِ نم رسُولِ پاکﷺ سے پھر مُدعا کہنا
ادب سے رحمتِ کونین کی دہلیز پر جُھک کر
کوئی اُترن نقوشِ پا کی ہو جائے عطا کہنا
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
راوی کہتا ہے
اُجڑے دل کی بستی میں
کوئی رہتا ہے
فاطمہ زہرا جبیں
ٹپہ/ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/٭ہائیکو/تروینی/ترائلے
یہ محفل یہ سُر تال
ہو گانے والی یا قوال
کہ پیسہ بولتا ہے
سائل آزاد
حبسِ زندانِ جنوں خیز میں کیا غم ہے مجھے
گرمئ وحشتِ جاں سوز کوئی کم ہے مجھے
ہے وہ جلوہ تو اسی دُھند کے آئینے میں
پردہ ہائے اشکِ رواں دیدۂ شبنم ہے مجھے
خمِ ابرُو پہ نظر رُک سی گئی ہے، لیکن
قوسِ افلاک اب اک نُکتۂ برہم ہے مجھے
اس نے تحفے میں
ایک ڈائری اور قلم بھیجا ہے
جس کے پہلے صفحے پر چند حروف لکھے ہیں
اس صفحے کو واپس کر دینا کچھ میرے لیے لکھ کے
میں حسبِ وعدہ یہ صفحہ واپس کر رہا ہوں
جس پہ لکھا ہے؛
گھر کے حالات کا بہانہ ہے
مسئلہ مجھ تلک نہ آنا ہے
ہے مِرے ساتھ ایک تُو ہی تُو
اور تِرے ساتھ اک زمانہ ہے
سوچ لے دل سے سانولی لڑکی
مجھ علاوہ کوئی ٹھکانا ہے؟
لوٹ آؤ
اپنے احساس کے سمندر میں
کھو گئے ہو تو پھر سے لوٹ آؤ
اس سے پہلے کہ اک بھنور تم کو
اپنی گہرائیوں میں لے ڈُوبے
لوٹ جاؤ تم اپنے ساحل پر
کہ جہاں پر نجانے کتنے اور
اک عنایت ذرا سی اور تو کر
پہلے وعدوں پہ اپنے غور تو کر
ظرف میرا بھی تجھ پہ کُھل جائے
حسبِ توفیق مجھ پہ جور تو کر
ساتھ دُنیا بھی تجھ کو لے کے چلے
خُود کو حسبِ ہوائے دور تو کر
دلوں سے ترکِ تعلق کا ڈر نکل جائے
تِرا مزاج ذرا سا اگر بدل جائے
سبھی کے سامنے ہے اک ہجوم رشتوں کا
وہ کامراں ہے جو اس بھیڑ سے نکل جائے
اس ارتکابِ تمنا پہ کیا سزا دو گے؟
تمہارے قدموں پہ کوئی اگر مچل جائے
قبائے زیست جو تارِ محبت سے رفُو ہوتی
ہماری چاک دامانی نہ رُسوا کُو بکُو ہوتی
اگر وہ دیکھتے اک بار بھی مے پاش نظروں سے
نہ پھر بادہ کشوں کو خواہشِ جام و سبُو ہوتی
اشاروں سے بھلا کیا مُدعائے دل بیاں ہو گا
اکیلے میں جو تم ملتے تو کوئی گُفتگو ہوتی
در بیانِ فوائدِ خاموشی (خاموشی کی فوائد کے بیان میں)
اے برادر گر تو ہستی حق طلب
اے بھائی اگر تجھے حق کی تلاش ہے
جُز بہ فرمانِ خُدا مکشائی لب
تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاقہ لب مت کھول
گر خبر داری ز حیّ لا یموت
اگر زندہ اور کبھی نہ مرنے والی ذاتِ ربانی سے آگاہ ہے
فطرت کا اس کی آج پتہ سب کو چل گیا
واعظ کا خُود بیاں کے مخالف عمل گیا
پنہاں روش میں اپنی زمانے کی ہے روش
جب ہم نے خُود کو بدلا، زمانہ بدل گیا
نکلا تھا آفتاب جو میرے مکان سے
سُنتا ہوں تیرے در پہ وہ پہنچا تو ڈھل گیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
میرے آقاﷺ کو خبر تو ہو گی
جب بھی یہ چاند اسی طرح اُبھرتا ہو گا
یہ ستارہ بھی یہیں پر ہو گا
شام کی گود میں پھیلے ہوئے کُہسار
یہ مٹی یہ ہوا
ابر اور گرد کے پردے میں نہاں اور عیاں رنگِ شفق
آتشیں رنگ میں گُم ہوتا ہوا تارِ اُفق
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دِین خُدا کی عظمت و زِینت ہیں فاطمہؑ
تقدیسِ ہل اتیٰ کی وجاہت ہیں فاطمہؑ
سمجھے گا کون کیا ہیں حقیقت میں فاطمہؑ
سچ تو ہے یہ کہ رازِ مشیّت ہیں فاطمہؑ
سارے امام خلق پہ حُجّت خُدا کی ہیں
سب آئمہ کے واسطے حُجّت ہیں فاطمہؑ
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہے نام خُدا کا جہاں ہے نام نبیﷺ کا
اِس دُنیا میں اُس دُنیا میں پیغام اُسی کا
اذان نمازوں میں ایماں میں بھی ہے وہ
کلمہ میں ہے قُرآن میں اِکرام اسی کا
دِیں کی ہو تکمیل، یا انعام کی تکمیل
قبروں کے سوالات میں اسلام اسی کا