گُلشن کو شعلہ زار بناتے ہو کس لیے
اپنے ہی گھر کو آگ لگاتے ہو کس لیے
کتنے ہی گُل جمال یہاں خُوش خرام ہیں
کانٹے روش روش پہ بِچھاتے ہو کس لیے
اسلام ہے ازل سے علمدارِ دوستی
آپس میں دوستوں کو لڑاتے ہو کس لیے
بربادیوں کے شعلے بُجھاؤ تو بات ہے
آبادیوں کا باغ جلاتے ہو کس لیے
انساں عظیم جوہرِ انسانیت سے ہے
انسانیت کو داغ لگاتے ہو کس لیے
پالا ہے جس نے تم کو محبت کی گود میں
خنجر اُسی کے تن پہ چلاتے ہو کس لیے
پایا ہے جس کے سائے میں آرام عمر بھر
تیشہ اُسی شجر پہ چلاتے ہو کس لیے
اسلامیانِ پاک سے رزمی یہ پُوچھنا
اسلامیوں کا خون بہاتے ہو کس لیے
بشیر رزمی
No comments:
Post a Comment