قبائے زیست جو تارِ محبت سے رفُو ہوتی
ہماری چاک دامانی نہ رُسوا کُو بکُو ہوتی
اگر وہ دیکھتے اک بار بھی مے پاش نظروں سے
نہ پھر بادہ کشوں کو خواہشِ جام و سبُو ہوتی
اشاروں سے بھلا کیا مُدعائے دل بیاں ہو گا
اکیلے میں جو تم ملتے تو کوئی گُفتگو ہوتی
تمہاری آمدِ پُر لُطف کا اعجاز ہے، ورنہ
بڑی بے کیف بزمِ آرزوئے رنگ و بُو ہوتی
اُمید و حسرت و ارمان پہ قائم ہے یہ دُنیا
نہ ہوتی آرزُو تو آرزُو کی آرزُو ہوتی
سفر اس دارِ فانی کا بہت دُشوار ہو جاتا
تمہیں پانے کی اس دل میں اگر نہ جُستجُو ہوتی
تھے جتنے پیچ و خم گیسُوئے ہستی کے سنور جاتے
کرم فرما جو صادق پر نگاہِ یار تُو ہوتی
خلیل صادق
No comments:
Post a Comment