وہ جو شکوے کر رہے تھے تلخئ حالات کے
آ گئے زد میں سبھی بے موسمی برسات کے
پہلے پہلے میں کسی بھی بات پر روتا نہ تھا
پھر مِری آنکھوں میں خیمے لگ گئے سادات کے
کھولی جب اس خوبرو نے بزم میں اپنی زباں
پھول کھلنے لگ گئے ہر سمت موضوعات کے
اس سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے زیب داستاں
جس نے سو مطلب نکالے ہیں تمہاری بات کے
استخارے میں جب آیا ہے کہ دونوں ایک ہوں
پھر مسائل کس لیے ہیں مسلکوں کے ذات کے
کہہ رہا ہے آج بھی عاشور کی شب کا چراغ
بجھ رہے ہیں دن کے اندھیرے میں سورج رات کے
موسیٰ کاظم
No comments:
Post a Comment