آخری تاوان ہے یا موت کا سامان ہے
فیصلہ ہونے کو ہے کہ خودکشی آسان ہے
نرم و خستہ ہو چلے تھے تر نوالہ ہو گیے
بن گیے پتھر کے ہم اب سنگ بھی حیران ہے
کانچ کچومر ہوا یہ جرم میرے سر ہوا
وہ وار سہے دل نے کہ اب خود یہ پریشان یے
بدلیاں رونے کو ہیں کیا ماجرا ہونے کو ہے
رو رہی ہیں ہچکیاں یہ صبر کا فقدان ہے
ماس بھی اب چھیل ہی دوں سانپ کوے چیل کو دوں
آنکھ میری سرخ ہوئی جسم پریشان ہے
تیغ و روانی نہیں اس جھیل میں پانی نہیں
ہجر کے صحرا میں مصیبت بھی مہربان ہے
ہو سکا تھا، کر لیا، تابوت میں سر دھر لیا
چل پڑا موجوں کی سمت جینے کا ارمان ہے
اسرار ہاشمی
No comments:
Post a Comment