رنجش کے ہر اک روگ اور الزام سے پرے
لے جاؤں تجھ کو دوست میں ابہام سے پرے
خوابوں کو میرے نیند یہ مٹنے نہیں دیتی
ہو جاؤں کسی طور میں آرام سے پرے
چھینے گئے ادراک سے منزل کے راستے
راستہ بنا کے دے کوئی اب گام سے پرے
بے ڈور ہلایا جا رہا خُود سر میں سراسر
سرکار کے سب کام ہیں ہر دام سے پرے
خونی کو نا مل پائے گی اس غم سے رہائی
مِیرا نہیں ہے کوئی یہاں شام سے پرے
ہیجان سخی بن کے میرے سامنے بیٹھا
یوں مجھ کو کیے جا رہا بلرام سے پرے
لے جا تو کلیسا مجھے قُلزم کے کنارے
پی جاؤں نا زم زم کو کیے جام سے پرے
محور میں دکھائی نہیں دیتا کوئی تجھ سا
کر دوں میں تیرا نام میرے نام سے پرے؟
اسرار ہاشمی
No comments:
Post a Comment