تمہاری یاد میں جیتے تمہارا دم بھرتے
یہ کیا کہ عمر گنوا دی ہے نوکری کرتے
نہ جا رقیب کی محفل میں رات کو تنہا
یہ دیکھ پاؤں پہ ہم تیرے ہاتھ ہیں رکھتے
کچھ اس لیے بھی اسے دُکھ میں مِری یاد آئی
چراغ شام سے پہلے جلا نہیں کرتے
پتہ لگاؤ خزانہ کہاں ہے دفن، کہ میں
قلعے میں پہنچ تو جاؤں گا مارتے مرتے
وہ کیا لڑیں گے ہمارے حقوق کی خاطر
جو لوگ کاسۂ درویش تک نہیں بھرتے
ہماری آنکھ سے آنسو بھی گِر رہے ہوں گے
کہ جن دنوں میں درختوں سے پات ہیں جھڑتے
اگر تو ہم سے نگاہیں نہ پھیرتا ہمدم
تو ہم بھی عشق کسی سے نہ دوسرا کرتے
بہشت چھوڑ کے دُنیا کو فوقیت دے گا
روانہ ہونا ہے جس نے چراغ کے بُجھتے
موسیٰ کاظم
No comments:
Post a Comment