بچھڑ کے تم سے جو فصلِ بہار گُزری ہے
ہمارے دل کو بڑی ناگوار گزری ہے
یہ زندگی جو گُزاری ہے ہم نے تیرے بغیر
یقین جان، بہت بے قرار گزری ہے
تمہاری یادوں کے موتی سمیٹے بیٹھا تھا
تمام رات مِری اشک بار گزری ہے
تمہارا ذِکر کیا ہم نے اپنی غزلوں میں
یہ بات سب کو بڑی نا گوار گزری ہے
سزا یہ ہم کو مِلی تم سے دل لگانے کی
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
سلیم ہم نے جسے صرف اپنا سمجھا تھا
وہ زندگی بڑی بے اعتبار گزری ہے
سلیم امروہوی
No comments:
Post a Comment