Friday, 2 February 2024

ہے یہ دشمن جان کی یہ جان کر

 ہے یہ دُشمن جان کی، یہ جان کر

روز مے پیتا ہے مےکش چھان کر

زخم پر رکھ دے مِرے تازہ گُلاب

ہے مسیحِ عشق کا فرمان، کر

ساتھ میں لے کر بہاریں آئے گا

گھر سے نکلا ہے جو دل میں ٹھان کر

حوصلوں کو قوتِ پرواز دے

دُور ہے منزل، سفر آسان کر

ناقدوں کے حق میں کر دل سے دُعا

تجربہ اُستاد ہے یہ مان کر

آنکھ سے بارش سوالوں کی نہ کر

آہٹوں کی سمت اپنا کان کر

ناریل کے پیڑ سے کیا ہو بھلا

سائے کی حسرت نہ اے نادان کر


اسرارالحق فیاضی

No comments:

Post a Comment