اشکوں نے لفظ ہجر کیا لکھا بیاض پر
غزلوں نے اس کو جُھوم کے گھیرا بیاض پر
چہرے پہ تیرے تِل نہیں، دل شاعروں کا ہے
جیسے خیام کو کوئی مصرعہ بیاض پر
یک لخت کتنے پُھول اذیت کے کِھل اُٹھے
دل تیرے ہجر میں بڑا تڑپا بیاض پر
پھر یوں ہُوا ہے دل تیری یادوں پر مُطمعن
مچلا تیرے حصول پر، بہلا بیاض پر
پِھرتی تھی تیری یاد جسے در بدر لیے
دُکھ نارسائی کا وہی مہکا بیاض پر
لگتا ہے بات پھر کسی فُرقت زدہ کی ہے
شعلہ سا ایک پھر کوئی لپکا بیاض پر
اس کو بُھلا کے مطمئن پھرتے تھے آج تک
پھر شعر اس کی یاد میں اُترا بیاض پر
رفیع تبسم
No comments:
Post a Comment