میرا کوئی دُشمن ہی جب نہیں زمانے میں
آگ لگ گئی کیسے میرے آشیانے میں
انگلیاں اُٹھاتے ہیں لوگ کس لیے مجھ پر
ذِکر جب نہیں میرا آپ کے فسانے میں
یہ اگر حقیقت ہے میں تمہارا مُجرم تھا
قید کر لیا ہوتا دل کے قید خانے میں
تجھ کو ناز ہے عابد اپنے چند سجدوں پر
عمر بیت جاتی ہے عاقبت بنانے میں
مجھ سے رُوٹھنے والے کچھ خبر بھی ہے تجھ کو
کتنے رنج جھیلے ہیں تجھ کو بُھول جانے میں
ایسی پھر کوئی عاشق کھائے نہ کبھی دل پر
ہم نے جیسی کھائی ہے چوٹ دل لگانے میں
بات وہ گئی باہر کل جو گھر میں تھی حیرت
کیا مِلا تمہیں آخر مجھ کو آزمانے میں
خلیل حیرت
No comments:
Post a Comment